افغانستان میں صدر اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان شراکتِ اقتدار کا ایک معاہدہ ہو گیا ہے۔
معاہدے کے مطابق عبداللہ عبداللہ صدر کے بعد ملک میں دوسرا اہم ترین عہدہ سنبھالیں گے۔ وہ کابینہ میں 50 فی صد ارکان کی تقرری کے لیے بھی نام دیں گے جن میں اہم وزارتیں بھی شامل ہوں گی۔
وائس آف امریکہ کی عائشہ تنظیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ عبداللہ عبداللہ گورنروں کی تقرری کے لیے نظام وضع کرنے میں بھی مدد دیں گے اور نئی قومی افہام و تفہیم کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے طالبان کے ساتھ امن عمل اور مستقبل کے مذاکرات کی قیادت بھی کریں گے۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے صدر اشرف غنی اور قومی مفاہمتی ہائی کونسل کے نئے چیئرمین عبداللہ عبداللہ کو ٹیلی فون کر کے معاہدے پر مبارک باد دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کا یہ موقف رہا ہے کہ سیاسی تصفیہ ہی تنازع کو ختم کر کے بین الافغان مکالمے کو آگے بڑھا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان کے انتخابات کے بعد اس کے نتائج کے حوالے سے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ اور فروری میں دونوں نے صدارت کا الگ الگ حلف اٹھا لیا تھا اور اپنی متوازی حکومتوں کا اعلان کر دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس وقت سے ملک شدید سیاسی بحران کی زد میں تھا اور امریکہ سمیت تمام متعلقہ فریق دونوں کے درمیان صلح اور شراکت اقتدار کا کوئی معاہدہ کرانے کے لیے کوشاں تھے۔
علاوہ ازیں ایک طاقتور ازبک لیڈر اور سابق نائب صدر عبدالرشید دوستم کو ایک صدارتی فرمان کے ذریعے مارشل کا عہدہ دے دیا گیا ہے جو افغان فوج میں سب سے بڑا عہدہ ہے۔
2016 میں ایک سیاسی حریف نے دوستم پر، جو کہ حقوق انسانی کی مبینہ خلاف ورزیوں کے لیے شہرت رکھتے ہیں، الزام لگایا تھا کہ انہوں نے انہیں زدو کوب کیا۔ جس کے بعد دوستم ترکی فرار ہو گئے تھے۔ اور پھر ایک سال وہاں قیام کے بعد عبداللہ عبداللہ کے ساتھی کی حیثیت سے انتخاب لڑنے کے لیے افغانستان واپس آئے۔
امریکہ نے افغانستان میں کسی سیاسی تصفیے کے لیے دباؤ ڈالنے کی غرض سے 2020 میں افغانستان کی امداد میں ایک ارب ڈالر کی کمی کر دی تھی اور کہا تھا کہ اگر دونوں فریق کوئی سمجھوتہ نہ کر سکے تو امداد میں مزید ایک ارب ڈالر کی کمی کر دی جائے گی۔
دونوں سیاسی حریفوں کے درمیان اس معاہدے پر ماہرین اور تجزیہ کاروں کا وہاں مستقبل میں قیامِ امن کے حوالے سے ردِ عمل مختلف ہے۔
جرمنی میں مقیم ممتاز افغان صحافی اور تجزیہ کار ڈاکٹر حسین یاسا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس لحاظ سے یہ ایک مثبت پیش رفت ہے کہ اب افغان حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط پوزیشن میں جائے گی۔ اور طالبان افغان حکومت کے درمیان اس خلفشار سے، جو معاہدے سے پہلے تھا، فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ طالبان کا رویہ جارحانہ نظر آتا ہے۔ انہیں ملک میں قیامِ امن کے لیے اپنے رویے کو تبدیل کرنا ہو گا کیونکہ اگر ملک میں تشدد کا گراف نیچے نہ آیا تو پھر امریکہ کے ساتھ ان کے معاہدے یا افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کا کیا فائدہ ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
برطانیہ میں مقیم ایک اور افغان صحافی اور تجزیہ کار میرویس افغان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے سے حالات مزید الجھ سکتے ہیں اور اقتدار میں ایک نئی رسہ کشی شروع ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ طالبان سیاست سے کام لیں اور اس جمہوریت کو قبول کر کے تشدد کی راہ ترک کر دیں تو انہیں عام لوگوں کی حمایت حاصل ہو جائے گی جو تشدد اور حکومت کے اندر رسہ کشی سے عاجز آ چکے ہیں۔ اور یوں ملک میں حقیقی امن کے قیام کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
پاکستان کا خیر مقدم
پاکستان نے افغانستان کے دو بڑے سیاسی حریفوں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان طے پانے والے شرکت اقتدار کے معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کابل میں افغان سیاسی رہنماؤں کے درمیان جامع حکومت اور قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے قیام سے متعلق معاہدے پر دستخط کا خیر مقدم کرتا ہے۔
دفترِ خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی کی طرف سے اتوار کی شب جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس نازک موڑ پر یہ انتہائی اہم ہے کہ تمام افغان رہنما، افغان عوام کے مفاد اور ملک میں پائیدار امن و استحکام کے حصول کے لیے مل کر تعمیری انداز میں کام کریں گے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے نے ایک تاریخی موقع فراہم کیا ہے اور افغانستان میں امن و مصالحت کے مقصد کے حصول کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ بین الافغان مذاکرات کا جلد آغاز ہو جس کے نتیجے میں افغانستان میں ایک جامع سیاسی تصفیہ سامنے آسکے۔
طالبان کا ردِ عمل
دوسری جانب افغان طالبان نے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان طے پانے والے شرکتِ اقتدار کے معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ماضی کے ناکام تجربے کا اعادہ قرار دیا ہے۔
دوحہ میں واقع طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ افغان مسئلے کا حل دوحہ معاہدے پر عمل درآمد میں مضمر ہے اور اس میں (مزید) رکاوٹیں پیدا کرنے سے گریز کیا جائے۔
ان کے بقول قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل کیا جانا چاہیے اور بین االافغان مذاکرات کا آغاز ہونا چاہیے۔
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
افغان امور کے ماہر تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا ہے کہ صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ پر امریکہ اور اس کے شراکت داروں کی طرف سے دباؤ تھا وہ ایک جامع حکومت قائم کریں تاکہ افغان امن عمل کی طرف پیش رفت ہو سکے۔
ان کے بقول اس معاہدے کے تحت عبداللہ عبداللہ کو امن عمل کے حوالے سے ایک اہم کردار دیا گیا ہے جس کے تحت وہ ایک نئے ادارے (اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل) کے سربراہ کے طور پر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی قیادت کریں گے۔
طاہر خان نے کہا کہ اس وقت امریکہ اور دنیا کی دلچسپی اس بات میں ہے کہ افغان امن عمل کیسے آگے بڑھے گا۔ ان کے بقول امریکہ اس بات کا خواہاں رہا ہے کہ طالبان سے بات چیت شروع ہونے سے قبل صدر غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان تنازع حل ہو۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار زاہد حسین سمجھتے ہیں کہ کابل میں سیاسی تقسیم کی وجہ سے بین الافغان مذاکرات کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔ ان کے بقول اگرچہ شراکت اقتدار کا معاہدہ ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن افغان امن عمل کی راہ میں اب بھی چیلنجز موجود ہیں۔
بین الاقوامی امور کے ماہر نجم رفیق کہتے ہیں کہ صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا ایک دوسرے کو سیاسی طور پر تسلیم کرنے کی وجہ سے افغان حکومت امن عمل آگے بڑھانے اور طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے متحدہ فرنٹ بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
البتہ ان کا کہنا تھا کہ افغان امن عمل نہایت پیچیدہ معاملہ ہے اور طالبان، افغان حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔ طالبان اب بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پوری طرح عمل درآمد ضروری ہے۔