مبصرین کے مطابق سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ، سابق وزیرخزانہ اشرف غنی اور صدر حامد کرزئی کے بڑے بھائی قیوم کرزئی کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔
افغانستان میں اتوار کو پانچ اپریل کو ہونے و الے صدارتی انتخاب کی مہم کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔
آئین کے مطابق صدر حامد کرزئی تیسری مدت کے لیے اس انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے۔
مبصرین کے مطابق سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ، سابق وزیرخزانہ اشرف غنی اور صدر حامد کرزئی کے بڑے بھائی قیوم کرزئی کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔
اس مہم کے آغاز سے ایک روز قبل ہی مغربی شہر ہرات میں صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ کے دو کارکنوں کو نامعلوم مسلح افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔
مہم کے دوران بھی پرتشدد واقعات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کیونکہ طالبان نے انتخاب میں خلل ڈالنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
افغانستان میں صدارتی انتخاب جنگ سے تباہ حال اس ملک میں سیاسی استحکام اور انتقال اقتدار کے تناظر میں ایک امتحان کی حیثیت رکھتا ہے اور ایک ایسے وقت جب ملک سے بین الاقوامی افواج کا انخلا ہونے جا رہا ہے، یہ انتخابات دنیا کی توجہ کا خاص مرکز بنے ہوئے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں طالبان کی طرف سے پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جب کہ گزشتہ ماہ کابل میں ایک لبنانی ریسٹورنٹ پر حملے میں شدت پسندوں نے غیرملکیوں سمیت 21 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
طالبان یہ دعویٰ بھی کرچکے ہیں کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد وہ ملک پر دوبارہ تسلط حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مبصرین افغانستان کی سکیورٹی فورسز کی نسبتاً کمزور استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک میں امن و امان کی صورتحال کے مزید بگڑنے کا خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں۔
آئین کے مطابق صدر حامد کرزئی تیسری مدت کے لیے اس انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے۔
مبصرین کے مطابق سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ، سابق وزیرخزانہ اشرف غنی اور صدر حامد کرزئی کے بڑے بھائی قیوم کرزئی کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔
اس مہم کے آغاز سے ایک روز قبل ہی مغربی شہر ہرات میں صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ کے دو کارکنوں کو نامعلوم مسلح افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔
مہم کے دوران بھی پرتشدد واقعات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کیونکہ طالبان نے انتخاب میں خلل ڈالنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
افغانستان میں صدارتی انتخاب جنگ سے تباہ حال اس ملک میں سیاسی استحکام اور انتقال اقتدار کے تناظر میں ایک امتحان کی حیثیت رکھتا ہے اور ایک ایسے وقت جب ملک سے بین الاقوامی افواج کا انخلا ہونے جا رہا ہے، یہ انتخابات دنیا کی توجہ کا خاص مرکز بنے ہوئے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں طالبان کی طرف سے پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جب کہ گزشتہ ماہ کابل میں ایک لبنانی ریسٹورنٹ پر حملے میں شدت پسندوں نے غیرملکیوں سمیت 21 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
طالبان یہ دعویٰ بھی کرچکے ہیں کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد وہ ملک پر دوبارہ تسلط حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مبصرین افغانستان کی سکیورٹی فورسز کی نسبتاً کمزور استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک میں امن و امان کی صورتحال کے مزید بگڑنے کا خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں۔