ایک امریکی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی ماہرین ِ ارضیات نے افغانستان میں معدنیات کے ایک کھرب ڈالر مالیت کے ایسے ذخا ئر کی نشاندہی کی جنہیں اب تک استعمال نہیں کیا گیا ہے۔
امریکی عہدے داروں نے نیورک ٹائمز کو بتایا ہے کہ امریکی عہدے داروں کا ماننا ہے کہ لوہے، تانبے، کوبالٹ، سونا، لیتھیم اور نوبیم کے ان ذخائر کا استعمال افغان معیشت حتیٰ کہ افغان جنگ میں بنیادی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ اُن کے بقول یہ ذخائر افغانستان کو دنیا کے ایک اہم ترین کان کنی کے مرکز میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
لیتھیم کی دھات سے لیپ ٹاپ کمپیوٹر اور موبائل فون میں استعمال ہونے والی بیٹریا ں بنائی جاتی ہیں جب کہ نوبییم کی نرم دھات کو سُپر کنڈکٹنگ سٹیل بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
امریکی سنٹرل کمان کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے اخبار نیو یارک ٹائمز کو بتایا ہے کہ ان ذخائر سے حیرت انگیز تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔
معدنیات کے لیے افغان وزارت کے مشیر جلیل جمریانی کا کہنا ہے کہ یہ معدنیات افغانستان کی معیشت میں ریڑ کی ہڈی کا کردار ادا کرسکتی ہیں۔
معدنیات کی اس دولت کا پتہ لگانے والی ٹیم امریکی وزرات دفاع اور امریکی ماہرین ارضیات کے ماہرین پر مشتمل ایک چھوٹی ٹیم نے پتہ لگایا ہے جنھوں نے ان نقشوں اور معلومات کی مدد سے یہ کام کیا جو1980ء کی دہائی میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے دوران روسی ماہرین نے جمع کی تھیں۔
امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ سویت فوجوں کے انخلاء کے بعد ملک میں خانہ جنگی شروع ہونے سے افغان ماہرین ارضیات نے ان معلومات اور نقشوں کو اپنے گھروں میں لے جاکر محفوظ کر لیا تھا اور 2001ء میں طالبا ن حکومت کے خاتمے کے بعد مقامی ماہرین ان اہم معلومات کو دوبارہ منظر عام پر لے آئے۔
نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی کو ان قدرتی ذخائر کی موجودگی کے بارے میں ایک تفصیلی بریفنگ بھی دی جا چکی ہے۔