افغانستان میں داعش کی ’’شیطانیت زوروں پر‘‘: کوگل مین

بقول تجزیہ کار ’’ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ درست ہے کہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے پاکستان کے لیے سودمند ہیں، جب کہ امریکہ اِن سے انتہائی درجے کا خطرہ محسوس کرتا ہے‘‘

ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا کے معاون سربراہ اور سینئر ایسو سی ایٹ مائیکل کوگل مین نے کہا ہے کہ ’’داعش افغانستان میں کامیاب اداروں کو نشانہ بنا رہی ہے، جس کا مقصد مایوسی پھیلانے کے علاوہ ترقی کی راہ ہموار کرنے کی علامات کو مٹانا ہے‘‘۔

اُنھوں نے یہ بات منگل کو شائع ہونے والے ایک اخباری تبصرے میں کی ہے جس کا عنوان ہے: ’افغانستان میں طالبان اور داعش کیوں مضبوط ہیں، اور پاک امریکہ تعلقات میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کی پشت پناہی کا تنازع‘۔

کوگل مین نے افغانستان میں طالبان اور داعش کی طاقت کے اسباب اور عناصر کا ذکر کیا ہے۔

اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’لڑائی کے میدان میں برتری دکھا کر اور پاکستان میں محفوظ ٹھکانے بند کراکے، افغانستان سے دہشت گردی کی جڑیں نہیں اکھاڑ سکتے‘‘۔

تجزیہ کار نے خاص طور پر کابل میں ’انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل‘ پر طالبان کے حملے اور جلال آباد میں ’سیو دی چلڈرین‘ کے فلاحی ادارے کو نشانہ بنانے کا حوالہ دیا۔

بقول اُن کے، اس سے داعش نہ صرف مایوسی پھیلانا چاہتا ہے بلکہ صحت سے متعلق کار خیر کے مشہور اداروں کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں، اُنھوں نےافغانستان کے شعبہٴ ٹیلی مواصلات کو ہدف بنانے کی حالیہ کوششوں کا بھی خصوصی ذکر کیا۔

تجزیہ کار نے کہا ہے کہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد ہر کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے ایملی ایشبرج کے ساتھ مل کر اُنھوں نے ’ورلڈ پالیٹکس رویو‘ میں ایک مضمون تحریر کیا ہے جس میں امریکہ پاکستان تناؤ کا احاطہ کیا گیا۔ بقول اُن کے، ’’ہم دونوں کا یہی خیال ہے کہ بنیادی طور پر دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے معاملے پر ہے۔‘‘

کوگل مین نے کہا ہے کہ ’’ہمیں نہیں لگتا کہ یہ تنازع بہت جلد حل ہونے والا ہے‘‘۔

بقول تجزیہ کار ’’ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ درست ہے کہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے پاکستان کے لیے سودمند ہیں، جب کہ امریکہ اِن سے انتہائی درجے کا خطرہ محسوس کرتا ہے‘‘۔

افغانستان کے 400 اضلاع میں سے طالبان کا 40 سے 50 فی صد پر کنٹرول ہے یا کنٹرول کا دعویٰ ہے۔ وہ کہتے ہیں سنہ 2001میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا، تب سے کبھی اتنا زیادہ رقبہ طالبان کے زیر قبضہ نہیں رہا۔

اُنھوں نے کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جن میں شہری ہلاکتوں میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے؛ جب کہ سرکشی کبھی اتنی دہشناک نہیں تھی۔

دوسری جانب، داعش زور پکڑتی جار رہی ہے، جس کا باعث غیر دوستانہ ہمسائے اور افغانستان کا ناپسندیدہ ماحول ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے خطے میں زیادہ تر دہشت گرد گروہ، جن میں طالبان بھی شامل ہیں، القاعدہ سے وابستہ ہیں۔