افغانستان میں طالبان کی حکومت ایک سال گزرنے کے بعد بھی ملک میں بہتری لانے میں بری طرح ناکام نظر آرہی ہے۔ ایک طرف تو طالبان کی افغانستان کو ایک ریاست کے طور پر چلانے کی اہلیت پر سوالات اٹھائے جار رہے ہیں اور دوسری طرف خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں بھی عالمی تنقید کی زد میں ہیں۔
ایسے میں ماہرین کے مطابق افغان عوام کو درپیش مسائل مزید گھمبیر ہوگئے ہیں اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنا اور عالمی اداروں کی طرف سے انسان دوست امداد میں کمی کے چیلنجز نے افغان شہریوں کے لیے مصائب میں اضافہ کردیا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی کابل میں امریکہ کے ڈرون حملے میں ہلاکت نے طالبان کے ان وعدوں کے بارے میں جو دہشت گردوں کو افغان سرزمین استعمال نہ کرنےدینے کے متعلق ہیں، واشنگٹن میں مزید شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔
SEE ALSO: وسائل کی کمی کے باوجود داعش عالمی خطرہ ہے، نئی رپورٹان سارے حالات میں طالبان اور افغانستان کہاں کھڑے ہیں اور مستقبل میں عالمی برادری کو کئی خطوں کوملانے والے ملک کے متعلق کیا پالیسی اپنانی چاہیے؟ واشنگٹن میں کام کرنے والے تھنک ٹینک کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ایک مباحثے میں افغانستان کے متعلق ایسے کئی سوالات اٹھائے گئے ۔ ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے طالبان کی اصلاح اور بین الاقوامی روابط دونوں پر روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر حسن عباس، جو واشنگٹن کی نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلیمات کے شعبے سے منسلک پروفیسر کی خدمات انجام دے رہے ہیں، نے امریکہ کی جانب سے افغانستان کے ساتھ روابط استوار کرنے پر زور دیا۔تاریخی، جغرافیائی اور انسانی ترقی کے پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جو اہم خطوں کے جوڑنے میں اس اہمیت کا حامل ہو جیسا افغانستان ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر نقشے کو دیکھا جائے تو افغانستان خطے کے ممالک ترکی، چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے عین وسط میں واقع رابطوں کا ملک ہے۔
اسی طرح حسن عباس نے جیو پالیٹکس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان خطے کے تنازعات کا بھی مرکز رہا ہے چاہے وہ چین اور بھارت کی کشمکش ہو یا پاکستان اور بھارت کی عداوت۔ اس سلسلے میں انہوں نے علامہ اقبال کی نظم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی ایشیا میں قلب کی حیثیت ہے، اگر افغانستان میں بدامنی ہوگی تو پورے ایشیا میں انتشارہوگا اور اگر افغانستان میں امن ہوگا تو پورے براعظم میں امن ہوگا۔
ڈاکٹر حسن عباس نے کہا کہ امریکہ کو بھی اپنی افغان پالیسی کا جائزہ لینا چاہیے اانہوں نے کہا: "یہ بات بہت اہم ہے کہ امریکہ کو اپنی پالیسی کے حوالے سے سیکھنا چاہیے، ایک روز تو ہم وہاں پر ٹریلین ڈالر خرچ کر رہے ہوتے ہیں اور دوسرے دن افغانستان سے مکمل انخلا کر لیتے ہیں، کیا کوئی درمیانی راہ بھی ہے؟"
انہوں نے کہا کہ امریکہ کو اپنی پالیسیوں کا خود تجزیہ کرنا ہوگا کہ اس نے افغانستان میں حکومتی عملداری اور قانون کےنفاذ کے جن پروگراموں کے تحت مقامی افراد کو ٹریننگ دی اس میں کہا ں کہاں خامیاں رہ گئیں۔ "٘محض سب کچھ بھلادینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔"
اپنے نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے حسن عباس نے کہا کہ افغانستان میں رہ جانے والی خامیوں پر قابو پانے کے لیے، واشنگٹن میں افغان مشن کی نگرانی کرنے والے امریکی ادارے سگار کی رپورٹس سے استفادہ کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر سکیوریٹی اہلکار یا ماہرین واشنگٹن کو غلط اطلاعات یا تجزیے فراہم کررہے تھے تو امریکی صدور کو صورت حال میں بہتری لانے کے لیے سیاسی سطح پر اقدامات کرنا چاہیے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے بین الاقوامی برادری کی جانب سے طالبان حکومت سے رابطے استوار نہ کرنے کی پالیسی پر تنقید کی۔ ڈاکٹر حسن عباس نے کہا کہ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ طالبان کا انسانی حقوق کا ریکارڈ بہت ہی خراب ہے اور وہ اس معاملے میں جابرانہ طریقے اپناتے ہیں۔ لیکن انہوں نے استفسار کیا کہ کیا دنیا اور مشرق وسطی کے دوسرے کئی ممالک میں انسانی حقوق اور خواتین اور اقلیتوں کےحقوق کی پامالی نہیں ہو رہی، تو پھر افغانستان نے ایسا مختلف کیا کردیا ہے کہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے ایک الگ معیار اپنایا جارہا ہے۔
گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے سنیئر ماہر اینڈریو ویٹکنز نے کہا کہ اگرچہ وہ پروفیسر عباس کے کچھ نکات سے اتفاق کرتے ہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ طالبان نے صنفی امتیاز کے حوالے سے جو پالیسیاں اپنائی ہیں وہ ان ملکوں سے کہیں زیادہ مختلف اور سنگین ہیں جن ملکوں سے امریکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کےباوجود تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے۔
اپنے اختلافی نکتے کو آگے بڑھاتے ہوئے اینڈریو ویٹیکنز نے کہا کہ دنیا بھر میں کہیں بھی تعلیم کے بنیادی حق کو اس طریقے سے پامال نہیں کیا گیا جیسا کہ افغانستان میں ہو رہا ہے۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ خواتین پر زندگی کے مختلف شعبوں میں حتی کہ سفر کرنے پر عائد پابندیاں بھی دنیا کے دوسرے حصوں سے زیادہ شدید ہیں۔
اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہ امریکہ کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والے ممالک کے لیے پالیسیاں یکساں نہیں ہیں، اینڈریو ویٹکنز نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ کئی ممالک جن سے امریکہ تعلقات استوار کیے ہوئے ہے وہاں خواتین کو معاشرتی اور ریاستی سطح پر حقوق کےمعاملات پر مسائل کا سامنا ہے ۔
لیکن انہوں نے نشاندہی کی کہ امریکہ ان تمام ممالک کے ساتھ یہ مسائل اٹھاتے ہوئے ان پر زور دیتا ہے کہ وہ اس معاملے میں بہتری لانے کے لیے درست سمت میں چلیں۔ مگر جب سوال افغانستان کا آتا ہے تو طالبان ایک سال اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی صرف ایک ہی سمت میں جارہے ہیں اور یہ سمت سراسر غلط ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وسیع تر تناظر میں بات کرتے ہوئے انہوں نے افغانستان کی خطے کی اہمیت کو تسلیم کیا اور کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کے ساتھ اینگیجمنٹ یعنی روابط قائم کرنا ضروری ہے۔ اینڈریو ویٹکنز نے کہا کہ امریکہ کو یہ تک بھی کہا جاتا ہے کہ وہ خطے میں شامل اتحادی ممالک کی خاطر افغانستان سے روابط قائم کرے۔
انہوں نے کہا کہ یقیناً امریکہ کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ گزشتہ دو دہائیوں کے تناظر میں اٖفغان عوام کی بہتری پر توجہ دے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو اس بات کا ادراک بھی ہے کہ افغان عوام شاید دنیا میں سب سے زیادہ سنگین انسانی بحران کو جھیل رہے ہیں۔
انہوں نے طالبان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے کہا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ طالبان افغانستان کے قریب ترین ہمسایہ ممالک سے تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں ۔ ویٹکنز نے کہا کہ روس، چین اور پاکستان طالبان پر انسانی اور خواتین کے حقوق اور الیکشن کروانے جیسےمعاملات پر مغربی ممالک کی طرح دبا نہیں ڈالیں گے۔ طالبان سمجھتے ہیں کہ یہ ملک ان کو اپنی من مانی کرنے کی اجازت دیں گے۔
لیکن ساتھ ہی طالبان کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ یہ ممالک افغانستان کو وہ بیرونی امداد نہیں دے سکتے جس کی اس کو اشد ضرورت ہے۔ ابھی بھی امریکہ اور یورپی ملکوں نے طالبان کو سب سے زیادہ امداد دی ہے۔
"طالبان چاہتے ہیں کہ انہیں عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے لیکن انہوں نے اپنے رویے میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں پیدا اکی جس کی بنا پر انہیں تسلیم کیا جائے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے سنٹر فار گلوبل لبرٹی اور پراسپیریٹی سے منسلک ماہر مصطفی اکیول نے طالبان پر عائد کی گئی امریکی پابندیوں کی پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں افغان بچوں کا سوچنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے طالبان کا ریکارڈ بھیانک ہے لیکن ہمیں افغان عوام کی خاطر طالبان سے رابطے کرنے چاہیں۔
مباحثے کی میزبان سحر خان نے، جو کیٹو انسٹی ٹیوٹ میں محقق ہیں، کہا کہ امریکہ کو طالبان پر پابندیاں عائد کرکے کوئی خاص اثر و رسوخ حاصل نہیں ہوا۔
ماہرین نے طالبان کے ساتھ" کیرٹ اینڈ اسٹک" یعنی ترغیبات اور پابندیوں جیسی سزا دینے والی پالیسیاں اپنانے پر بھی اپنی آرا کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر حسن عباس نے کہا کہ افغانستان کے حالات تقاضا کرتے ہیں کہ طالبان کو ترغیب دی جائے کہ وہ افغان عوام کےلیےبہتر راہ اختیار کریں۔
اینڈریو ویٹکنز نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ طالبان نےاب تک تعلیم اور خواتین کے روزگار جیسے مسائل پر جہاں سمجھوتہ کیا ہے ان کا تعلق اندرونی یعنی افغان عوام کی طرف سے اجاگر کیے گئے عوامل سے ہے۔
"دوسری طرف ہم جانتے ہیں کہ طالبان اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ انہوں نے امریکہ کی اسٹک (یعنی سزادینے والی) پالیسیوں کے خلاف کس قدر مزاحمت کی ہے۔ لیکن ہمیں اس بات کا کوئی علم نہیں کہ طالبان ترغیبات کی پالیسی کے نتیجے میں عوام کے لیے کیا پالیسیاں اپنائیں گے اور ان کے دنیا کے متعلق خیالات میں کیا تبدیلی آئے گی۔"