افغانستان کے ایک گاؤں میں مبینہ قتل عام میں ملوث 38 سالہ امریکی فوجی پر 17 افراد کے قتل اور ، چھ کو قتل کرنے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کردیا گیا ہے، لیکن مقدمے کی کارروائی شروع ہونے میں دو سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
اس ہلاکت خیز سانحے کے نتیجے میں افغان امریکہ تعلقات کو، جو پہلے ہی تناؤ کا شکار ہیں مزید دھچکا لگاہے۔
سٹاف سارجٹ رابرٹ بیلز ، جن کی فوج میں ملازمت کو گیارہ سال ہوچکے ہیں، اس ماہ کے شروع میں رات کی تاریکی کافائدہ اٹھاتے ہوئے جنوبی افغانستان میں اپنی فوجی چوکی سے نکلا اور نو بچوں اور آٹھ بالغ افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔
ہلاک ہونے والے افراد کے خاندان کے افراد اور رشتے داروں نے جمعے کے روز مطالبہ کیا کہ حملہ آور پر افغانستان میں مقدمہ چلایا جائے۔
امریکی ریاست واشنگٹن کے ایک فوجی مرکزمیں بیلز کے ترجمان نے کہا ہے ابھی مقدمے کی ابتدائی سماعت شروع ہونے میں کئی ماہ کا وقت پڑا ہےاور باقاعدہ سماعت شروع ہونے میں دو سال کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے،جس کا انحصار ابتدائی سماعت اور دیگرکارروائیوں پر ہے۔
بیلز کو، جو دوبچوں کاوالدہے ، ریاست کنساس کی فورٹ لیون ورتھ کی فوجی جیل میں جمعے کو اس کے خلاف لگائے گئے الزامات کے بارے میں بتایا گیا۔
بیلز کے سویلن وکیل جان ہنری براؤن نے تسلیم کیا ہے کہ فوج میں الکوحل پر پابندی کے باوجود ان کے موکل نے فائرنگ اس واقعہ سے پہلے کچھ پی رکھا تھا۔
براؤن کا یہ بھی کہناہے کہ ان کا موکل جنگ کے نفساتی دباؤ کا بھی شکار تھا۔
بیلز جو افغانستان میں اپنی تعیناتی سے قبل تین بار عراق میں خدمات انجام دے چکاہے، 2010ء میں عراق میں دماغی چوٹ کا نشانہ بن چکاہے۔ افغانستان میں وقوع سے ایک روز پہلے اس نے ایک دھماکے میں اپنے ایک ساتھی کی ٹانگ اڑتے ہوئے دیکھی تھی۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ بیلز کو ماضی میں الکوحل پینے سے متعلق قانونی مسائل کا سامنا رہاہے۔ اس کے علاوہ اپنے گھر کے مالی مسائل بھی درپیش تھے اور کئی سال قبل اس کے خلاف 15 لاکھ ڈالر کی جعل سازی کا فیصلہ بھی آیا چکا ہے۔
بیلز کو اپنے جرم کی بنا پر موت کی سزا بھی ہوسکتی ہے، جو ایک ایسی سزا ہے جو گذشتہ پانچ عشروں میں کئی امریکی فوجی کو نہیں دی گئی ۔