طالبان افغانستان کے بیشتر حصوں پر کنٹرول کا دعوی کر رہے ہیں۔ صدر اشرف غنی اور ان کے قریبی معاونین ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں اور طالبان نے ایک آدھ جگہ کے علاوہ تقریباً پورے ملک میں نظم و نسق کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ لیکن صورت حال اس لحاظ سے واضح نہیں ہے کہ آئندہ کے لئے ان کے منصوبے کیا ہیں۔
ماہرین اور تجزیہ کاروں کی رائے میں، طالبان دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اب پہلے والے طالبان نہیں ہیں اور ان کی سوچ بدل چکی ہے۔ وہ خود کو انتہا پسند کی بجائے اعتدال پسند ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا انہیں اسی حیثیت میں تسلیم کرے۔ لیکن بظاہر دنیا کے بہت سے ممالک، خاص طور پر مغرب ان کے اس موقف کو پوری طرح تسلیم کرتا نظر نہیں آ رہا اور وہ الفاظ کے ساتھ ان کے اقوال کا عملی اطلاق بھی دیکھنا چاہتا ہے۔
دوسری جانب نہ صرف یہ کہ سابقہ دور کے سرکاری افسران اور عہدیداران بدستور اپنے عہدوں پر کام کر رہے ہیں، بلکہ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے دوسرے ملکوں میں افغانستان کے سفارتی مشنوں میں بھی بدستور وہی لوگ کام کر رہے ہیں جو سابقہ حکومت کے مقرر کردہ ہیں۔ اس حوالے سے طالبان کی پالیسی کیا ہو گی؟ اس بارے میں واضح طور پر کوئی بات سامنے نہیں آ رہی ہے۔
محمد صادق خان افغانستان کے لئے پاکستان کے خصوصی ایلچی ہیں اور حکومت پاکستان کی جانب سے وہ افغانستان سے متعلق امور کی انجام دہی کے ذمہ دار ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ خود بھی ابھی افغانستان سے ہو کر آئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان کی صورت حال کے دو پہلو ہیں۔ اس کا مثبت پہلو تو یہ ہے کہ سیکیورٹی کے جتنے خطرات پہلے تھے اب اتنے نہیں رہے ہیں۔ بازار اور ٹرانسپورٹ وغیرہ بیشتر کھل گئے ہیں۔ لوگ آزادی سے گھروں سے نکل رہے ہیں۔ آ جا رہے ہیں یہاں تک کہ جو تھوڑے بہت غیر ملکی بھی رہ گئے ہیں، وہ بھی آزادی سے نکل رہے ہیں۔ اور امن و امان کی صورت حال بھی بہتر نظر آتی ہے۔
SEE ALSO: ’مزید افغان مہاجرین کی پاکستان آمد پر بین الاقوامی مدد بہت زیادہ ضروری ہے‘انہوں نے کہا کہ صورت حال کا دوسرا اور منفی پہلو یہ ہے کہ لوگ طالبان سے ان کے ماضی کے رویوں کے سبب ڈرے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک قسم کے تو وہ لوگ ہیں جن کے واقعی جائز مسائل ہوں گے اور وہ بجا طور پر خوفزدہ ہوں گے۔ جیسے فوج اور بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والے لوگ جو سابقہ حکومت کے احکامات پر عمل کرتے رہے۔ لیکن وہ لوگ بھی خوف کا تاثر دے کر افغانستان سے نکل بھاگنے کے لئے کوشاں ہیں جن کا کسی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ جو نہ کسی اہم سرکاری پوزیشن پر تھے نہ جن کا سیاست سے کوئی تعلق ہے۔ وہ عام لوگ ہیں۔ لیکن اس موقع سے فائدہ اٹھا کر افغانستان سے نکل بھاگنے کے لئے کوشاں ہیں اور اسی کے سبب کابل ایئرپورٹ پر اتنی بد نظمی ہوئی۔
خیال رہے کہ اب طالبان نے عام افغان شہریوں کے ایئرپورٹ جانے پر پابندی لگا دی ہے۔
جب صادق خان سے سوال کیا گیا کہ ان کے خیال میں طالبان کس قسم کی حکومت بنانا چاہتے ہیں اور کس قسم کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ وہ سب کی شمولیت کی طرز کی حکومت کا تصور رکھتے ہیں اور اسی جانب بڑھ رہے ہیں۔ لیکن اصل حقیقت اس وقت سامنے آئے گی جب اس سلسلے میں عملی اقدامات شروع ہوں گے۔
انہوں کہا کہ اس وقت افغانستان میں ایک بڑا سیاسی مسئلہ یہ ہے کہ وہاں سیاسی جماعتیں موجود نہیں ہیں۔ بس ایک ہی پارٹی ہے اور وہ ہیں طالبان۔ باقی سب انفرادی طور پر سیاست کرتے ہیں اور غالباً انہی میں سے بعض لوگوں سے رابطے کئے جا رہے ہیں۔ لیکن حتمی طور پر یہ کہنا کہ آئندہ حکومت کس نوعیت کی ہو گی، وہ کون سا ماڈل اپنائیں گے، قبل از وقت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ مستقبل میں افغانستان میں چین، روس اور ایران کا کوئی اہم رول دیکھتے ہیں، صادق خان نے کہا کہ حکومت سازی کے سلسلے میں تو وہ کسی کا رول نہیں دیکھتے؛ لیکن پاکستان سمیت یہ وہ ملک ہیں جن پر افغانستان کی صورت حال کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ لیکن تینوں مذکورہ ملک افغانستان میں مستقبل کی حکومت کے ساتھ معاونت ضرور کریں گے۔ خاص طور سے امریکہ کے وہاں سے مکمل طور پر نکل آنے کے بعد ان کا رول اور بھی بڑھ جائے گا، کیونکہ ان میں ایک قدر مشترک امریکہ کی مخالفت بھی ہے۔
خیال رہے کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام میں افغانستان کی شمولیت کے لئے پہلے بھی تجاویز آتی رہی ہیں اور اب وہاں ایک نئی حکومت بنتے کے بعد، تجزیہ کاروں کے خیال میں، چین اپنی تجویز پر عمل کرنے اور افغانستان کو اس پروگرام میں شامل کرنے کے لئے یقیناً کوشاں ہو گا۔ اور افغانستان کے لئے بھی، جو معاشی مشکلات کا شکار ہے اور جہاں ان مشکلات کے بڑھنے کا امکان بھی ہے، اس میں شمولیت مالی منفعت کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔
انہوں نے مزید سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں بعض غیر ملکی سفارت کاروں کے افراتفری میں نکلنے کے سبب بہت سے خفیہ کاغذات کو تلف کرنے کا موقع نہیں ملا؛ اور ان میں سے کچھ کاغذات غالباً طالبان کے ہاتھ بھی لگ گئے اور انہیں اندازہ ہوا کہ ماضی میں کیا ہوتا رہا ہے۔ اسی لئے وہ اس بات پر مصر ہیں کہ وہ بھارت سمیت سب پڑوسیوں سے اچھے تعلقات رکھیں گے۔ اور بات چیت بھی کریں گے۔ لیکن کسی کو بھی اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5