افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد دنیا بھر میں افغان باشندے اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں طرح طرح کے وسوسوں کا شکار ہیں۔ نئی افغان حکومت ابھی بنی نہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ جلد از جلد اپنا ملک چھوڑنے کے لئے بے تاب ہیں۔ مگر پریشانی ان کی بھی کچھ کم نہیں جو ملک سے نکل کر کسی دوسرے محفوظ مقام تک پہنچ گئے ہیں۔
لوگوں کے ملک چھوڑنے کا سلسلہ افغانستان پر طالبان کے قبضے سے بہت پہلے شروع ہو گیا تھا۔
35 سالہ عبادت اپنی دو نو عمر بیٹیوں کے ساتھ افغانستان سے 5 ماہ پہلے خلیج اس وقت پہنچیں جب ان کے علاقے میں بم کے لگاتار دھماکے ہوئے۔
اب وہ متحدہ عرب امارات میں محفوظ ہیں مگر عبادت کو طالبان کے تیزی سے ملک پر قبضے کے بعد وطن میں اپنے اہلِ خانہ کی فکر ہے۔
ان کی تین بہنیں اور والدہ کابل میں رہتی ہیں اور وہ ان کے لئے خوفزدہ ہیں اور فکر مند بھی اور کہتی ہیں کاش وہ انہیں اپنے ساتھ لا پاتیں یا کسی اور محفوظ ملک میں منتقل کر سکتیں۔
متحدہ عرب امارات کے فوجی گزشتہ 20 برس کے دوران جنگ اور افغان فوجیوں کی تربیت کے لئے افغانستان میں موجود رہے ہیں۔ اور اب اس کا کہنا ہے کہ اس نے کم از کم 36,500 لوگوں کے انخلاء میں مدد دی ہے اور اس ہفتے 1500 افغان شہریوں کو ملک میں عارضی رہائش فراہم کی ہے۔
SEE ALSO: کیا افغانستان میں میڈیکل انٹری ٹیسٹ میں اول آنے والی باران ڈاکٹر بن پائیں گی؟عبادت اب متحدہ عرب امارات کے شہر اجمان میں مقیم ہیں اور مقامی امدادی گروپ ان کی مدد بھی کر رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں انہیں خدشہ ہے کہ طالبان حکومت میں افغان خواتین کی زندگی بہت مشکل ہو جائے گی کیونکہ طالبان نے اپنے 1996 سے 2001 کے دور میں خواتین کو کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا تھا۔
وہ کہتی ہیں خواتین کے حقوق ختم ہو چکے ہیں۔ طالبان کے آنے کے بعد زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے۔
15 اگست کو افغانستان پر قبضے کے بعد سے طالبان نے خود کو زیادہ اعتدال پسند ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور کہا ہے کہ اس مرتبہ وہ خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے۔
تاہم، طالبان کے اس طرح کے بیانات پر امریکہ اور دنیا بھر کے ممالک کا ردِ عمل یہی ہے کہ ان کی پرکھ ان کے عملی اقدامات سے ہی ممکن ہے۔
اسی طرح سعودی عرب میں مقیم افغان شہری خالد عبدالرشید نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ وہ اپنے ملک میں امن کےلئے دعا گو ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو لوگ حال ہی میں افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اپنے ملک واپس جا سکیں۔
دیگر امید کر رہے ہیں کہ طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان میں جو اقتصادی بحران آنے کو ہے اس سے بچا جا سکے۔
ریاض میں مقیم افغان شہری شہرن آغا کہتے ہیں، "ہم چاہتے ہیں افغانستان میں جلد کوئی حکومت قائم ہو تاکہ مستقبل میں سب معمول کے مطابق ہو جائے۔
(اس مضمون میں معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)