|
پاکستان کی جانب سے افغانستان میں موجود کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مبینہ جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان طورخم اور چمن کے علاوہ دیگر سرحدی گزرگاہوں پر حالات بدستور کشیدہ ہیں۔
شمالی وزیرستان اور افغانستان کے سرحدی صوبہ خوست کے درمیان غلام خان سرحد منگل کو دوسرے روز بھی ہر قسم کی تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں اور آمد و رفت کے لیے بند ہے۔
قبائلی ضلع کرم کے قریب افغانستان سے ملحقہ سرحد پر گزشتہ روز کے مقابلے میں منگل کو حالات پرسکون ہیں۔ تاہم بڑکی اور خرلاچی کے مقامات پر دونوں جانب سیکیورٹی اہلکاروں کو چوکس رہنے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
اسی علاقے میں پیر کو کئی گھنٹوں تک دونوں ممالک کے سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان وقفے وقفے سے فائرنگ کا تبادلہ جاری تھا۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق دوطرفہ فائرنگ کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
SEE ALSO: افغانستان میں پاکستان کی فضائی کارروائی، سرحد پر کشیدگیواضح رہے کہ پاکستان نے پیر کی علی الصباح افغانستان میں جیٹ طیاروں سے کارروائی کی تھی اور دفتر خارجہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کارروائی میں حافظ گل بہادر گروپ سے وابستہ دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
پاکستان کا دعویٰ ہے کہ حافظ گل بہادر گروپ کے جنگجوؤں نے 16 مارچ کو میر علی میں ایک حملے میں پاکستان کی فوج کے سات اہلکاروں کو ہلاک کیا تھا۔
افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان کی فضائی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے اسے افغانستان کی سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق پاکستانی طیاروں نے صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل اور صوبہ خوست کے ضلع سیپرہ میں شہریوں کے گھروں پر بمباری کی اور کارروائی میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے جن میں پانچ خواتین اور تین بچے شامل ہیں۔
SEE ALSO: وائٹ ہاؤس: پاکستان اور افغانستان اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے طے کریںپاکستان کی حالیہ فضائی کارروائی سے قبل ہی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔
قبائلی علاقے کرم سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد جمیل نے رابطہ کرنے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دونوں ملکوں کی سرحدی فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے باعث مقامی افراد نے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کر لی ہے۔
محمد جمیل نے بتایا کہ سوموار کی شام مقامی قبائلی رہنماؤں کی مداخلت کے بعد فائرنگ کا تبادلہ تھم گیا ہے۔ تاہم اب بھی لوگوں میں خوف و ہراس موجود ہے۔
جنوبی وزیرستان کے افغانستان سے ملحقہ سرحدی گزرگاہ انگوراڈا مقامی قبائلیوں کے احتجاج کے باعث گزشتہ چار ماہ سے بند ہے۔