رسائی کے لنکس

افغانستان میں پاکستان کی فضائی کارروائی، سرحد پر کشیدگی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • افغان طالبان کے مطابق رات کو تین بجے پاکستان کے جنگی طیاروں نے افغانستان کے دو صوبوں میں شہریوں کے گھروں کو نشانہ بنایا ہے۔
  • اطلاعات کے مطابق صوبہ پکتیکا میں ٹی ٹی پی جب کہ خوست میں حافظ گل بہادر گروپ کے مبینہ ٹھکانے ہیں۔
  • اطلاعات کے مطابق اس کارروائی میں چھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم مبینہ حملوں میں کوئی بھی ہائی پروفائل شخص نشانہ نہیں بنا۔

افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان کی جانب سے افغان سر زمین پر مبینہ فضائی کارروائی کی مذمت کی ہے اور اسے افغانستان کی سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ اتوار کی شب تین بجے کے قریب پاکستانی طیاروں نے صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل اور صوبہ خوست کے ضلع سیپرہ میں شہریوں کے گھروں پر بمباری کی ہے۔

ترجمان کے مطابق پاکستان کی فضائی کارروائی میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں پانچ خواتین اور تین بچے شامل ہیں۔

خوست میں موجد عینی شاہد ملک نور خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ساڑھے تین بجے کے قریب انہوں نے جنگی جہازوں کی گرج دار آوازیں سنی جس کے بعد دھماکے ہوئے۔

ان کے بقول فضائی حملے کے بعد وہ اپنے اہلِ خانہ سمیت قریب واقع گھنے جنگل میں چلے گئے۔

ملک نور خان نے بتایا کہ علاقے میں پاکستانی مہاجر آباد ہیں جو اپنے ملک میں آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد ہجرت کر کے یہاں مقیم ہوئے تھے۔

یاد رہے کہ یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب ہفتے کو شمالی وزیرستان میں ایک حملے میں فوج کے دو افسران سمیت سات سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

پاکستان کی افغان حدود میں کارروائی کی تصدیق

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے افغانستان میں کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر پاکستان نے افغان حدود میں کارروائی کی ہے۔

بیان کے مطابق اس کارروائی میں حافظ گل بہادر گروپ سے وابستہ دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا جو کہ ٹی ٹی پی کے ہمراہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں اور پاکستانیوں کی اموات میں ملوث ہیں۔ حالیہ کارروائی میں انہوں نے 16 مارچ کو میر علی میں پاکستان کی فوج کے سات اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے۔

وزارتِ خارجہ کے مطابق پاکستان گزشتہ دو برس سے متواتر افغانستان کی عبوری حکومت کو ان کی سر زمین پر موجود ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں سے متعلق خدشات سے آگاہ کرتا رہا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ان دہشت گردوں سے پاکستان کی سیکیورٹی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہ دہشت گرد افغان سرزمین کو پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

وزارتِ خارجہ نے بیان میں مزید کہا کہ پاکستان افغان حکام کو متواتر یہ زور دیتا رہا ہے کہ وہ افغان سر زمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کے اقدامات کرے۔

بیان کے مطابق پاکستان ٹی ٹی پی کی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے اور اس کی قیادت کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔

پاکستان نے افغانستان میں برسر اقتدار طالبان پر الزام لگایا ہے کہ افغانستان میں بعض عناصر ٹی ٹی پی کی سرپرستی میں مصروف ہیں اور ان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

بیان کے مطابق افغانستان میں برسرِ اقتدار عناصر کو اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے کیوں کہ وہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں جن کے ہاتھ پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بیان میں مزید کہا کہ ٹی ٹی پی کی طرح کے دہشت گرد گروپ خطے کی سیکیورٹی اور امن کے لیے مشترکہ خطرہ ہیں۔

اسلام آباد نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے مشترکہ راہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس سے کوئی بھی دہشت گرد تنظیم افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو خراب نہ کر سکے۔

قبل ازیں پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے شمالی وزیرستان واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ہفتے کو پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا علم ہے اور اس حملے میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

افغان طالبان کا انتباہ

دوسری جانب طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرحد پار سے کارروائی جیسے واقعات کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں جس پر قابو پانا پاکستان کے بس کی بات نہیں ہو گی۔

طالبان ترجمان کے مطابق انہیں دنیا کی سپر پاورز کے خلاف جدوجہد کا طویل تجربہ ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی فوج کے جرنیلوں کو غلط پالیسیاں جاری رکھنے اور پڑوسی مسلم ممالک کے تعلقات خراب کرنے سے روکے۔

پاکستان افغانستان سرحد پر کشیدگی

سرحد پار افغانستان کے مختلف علاقوں میں مبینہ عسکریت پسندوں کے کیمپوں پر پاکستان کی فضائیہ کے بمباری کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سرحد پر حالات کشیدہ ہیں۔

پاکستان کے ضلع کرم کی افغانستان سے ملحقہ سرحدی گزرگاہ بڑکی اور جنوبی وزیرستان کے انگور اڈہ کے مقام پر دونوں ملکوں کے سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان پیر کی صبح سے فائرنگ کا تبادلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔

ان جھڑپوں میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی کوئی تفصیل سامنے نہیں آ سکی ہے۔

سرکاری طور پر پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) اور مختلف اضلاع کے انتظامی اور پولیس افسران نے بھی اب تک سرحد پر کشیدگی کے بارے میں کوئی تفصیلات جاری نہیں کیں۔

افغانستان سے گولہ باری

پاکستان کے سرحدی ضلعے کرم میں بوڑکی کے علاقے میں پیر کی صبح سرحد پار سے یکے بعد دیگرے مارٹر گولے فائر کیے گئے جو مقامی آبادی کے قریب گرے۔

اطلاعات کے مطابق افغانستان سے آنے والا مارٹر گولے سے آرا مشین تباہ ہوئی تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

مقامی ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق پاکستان کی فورسز نے بھی جوابی گولہ باری کی۔

اطلاعات کے مطابق پاکستان کے ضلع کرم میں معمول کے مطابق سرگرمیاں جاری تھی جب سرحد پار افغانستان سے گولہ باری شروع ہوئی جس سے مقامی آبادی میں ہل چل مچ گئی۔

عینی شاہدین کے مطابق کہ افغانستان سے آنے والا ایک مارٹر گولہ سرکاری اسکول کے قریب بھی گرا جب کہ ایک جنرل اسٹور بھی گولہ باری کی زد میں آیا۔

حکام نے ہائی اسکول بوڑکی کو بندکرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔

اس علاقے میں آباد طوری بنگش قبائل کے رہنما جلال حسین بنگش اور سابق رکنِ قومی اسمبلی ساجد حسین نے افغانستان سے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی سر زمین پر مستقبل میں اسی قسم کے حملوں سے اجتناب کیا جائے۔

بوڑکی کے مکینوں نے بتایا کہ دونوں جانب سرحدی علاقوں سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی۔

تاہم سرکاری ذرائع نے ابھی تک اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔

سرحدی گزرگاہ کی بندش

قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی مہراب آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مصروف ترین سرحدی گزرگاہ طورخم پر حالات پر امن ہیں اور دوطرفہ آمد و رفت اور تجارت کا سلسلہ بحال ہے۔

شمالی وزیرستان کے صحافی حاجی مجتبی نے بتایا کہ خوست کے ساتھ ملحقہ گزرگاہ غلام خان میں بھی حالات پر امن ہیں اور یہاں دوطرفہ تجارت جاری ہے۔

بعد ازاں سرکاری حکام نے بتایا کہ افغانستان کے ساتھ ملحقہ غلام خان سرحد کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔

’واضح تھا کوئی نہ کوئی کارروائی ہو گی‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے علاقے میر علی میں ہونے والے حملے کے بعد یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ پاکستان اس حوالے سے کوئی نہ کوئی اقدام کرے گا۔

شدت پسندی کے موضوع پر کام کرنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار داؤد خٹک کے مطابق میر علی حملے کے بعد اہلکاروں کے جنازے کے وقت کی ایک تصویر سامنے آئی جس میں ہلاک اہلکار کے تابوت کو ایک جانب صدر آصف علی زرداری جب کہ دوسری جانب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کندھا دے رہے تھے۔ اس سے واضح تھا کہ آنے والے دنوں میں ضرور کوئی نہ کوئی کارروائی ہو گی۔

داؤد خٹک کے مطابق میر علی کے واقعے کے بعد پاکستان کی فوج کو بہت صدمہ تھا کیوں کہ کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) مسلسل حملے فورسز کے لیے ندامت کا سبب تھے اور فوج کے اندرونی حلقے اس جوابی کارروائی کا تقاضا کر رہے تھے۔

تاہم داؤد خٹک نے واضح کیا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ پاکستان کی جانب سے مبینہ فضائی کارروائی کسی بھی لحاظ سے سود مند ثابت ہو سکتی ہیں۔

ان کے مطابق فضائی حملوں میں اپنے اہداف کو حاصل کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ تاہم اگر ایک بھی بے گناہ بچے، عورت اور بزرگ نشانہ بن جاتا ہے تو اس کے نتائج دور رس ہوتے ہیں جسے مخالف فریق حملہ آور کے خلاف بھر پور طریقے سے استعمال کرتا ہے۔

ان کے بقول اس طرح کے حملوں سے پاکستان نے افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کو بھی ایک پیغام بھیجنا تھا کہ پاکستان کی فوج کمزور نہیں ہے۔

تاہم داؤد خٹک کا مزید کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ان کارروائیوں کے بعد ٹی ٹی پی کمزور ہو گی بلکہ وہ مزید طاقت کے ساتھ ابھرے گی اور آنے والے دنوں میں پاکستان کے اندر اپنی کارروائیوں میں مزید شدت لا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس قسم کے اقدام کے بعد پاکستان کے افغان طالبان کے ساتھ بھی تعلقات خراب ہو سکتے ہیں جو کہ پاکستان کے لیے کسی بھی طور سود مند نہیں۔

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی طالبان پر تنقید
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:45 0:00

مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کا ایک بڑا حلقہ جو کہ سیکولر سوچ رکھتا ہے اور طالبان کی سوچ کے ساتھ متفق نہیں ہے۔ اگر ان حالات میں افغان طالبان پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی کرتے ہیں تو ایسے میں وہ ان عناصر بھی ان کی تائید کر سکتے ہیں۔

افغانستان میں مبینہ حملوں سے قبل شمالی وزیرستان میں کارروائی

افغانستان کی جانب سے تا حال کسی بھی عسکریت پسند کو نشانہ بنائے جانے کی تصدیق نہیں ہوئی ہے تاہم کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ سرحد پار دہشت گردوں کے کیمپ ہیں جہاں سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں اور حالیہ حملوں میں مقصد انہیں کے خلاف کارروائی تھی۔

عسکری کارروائیوں پر نظر رکھنے والے آن لائن ادارے ’خراسان ڈائری‘ کے ایڈیٹر افتخار فردوس کہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج نے افغانستان میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب متعدد مقامات کو جنگی جہازوں سے نشانہ بنایا جس کی سرکاری ذرائع تو تصدیق کر رہے ہیں لیکن حکومت یا فوج کی جانب سے باضابطہ طور پر اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں ہوا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں افتخار فردوس نے بتایا کہ رات کو ڈھائی بجے انٹیلی جینس کی بنیادی پر شمالی وزیرستان میں بھی آپریشن ہوا جس میں آٹھ دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اس آپریشن میں کمانڈر صحرا کو نشانہ بنایا گیا جو کہ ہفتے کو سیکیورٹی فورسز پر کیے جانے والے حملے کے منصوبہ سازوں میں شامل تھے۔

’افغانستان کے صوبہ خوست اور صوبہ پکتیکا میں مختلف مقامات کو نشانہ بنایا گیا‘

افتخار فردوس کے مطابق اس کارروائی کے ٹھیک آدھے گھنٹے کے بعد تین بجے افغانستان کے صوبہ خوست اور صوبہ پکتیکا میں چار مقامات کو نشانہ بنایا گیا جس میں ٹی ٹی پی کمانڈر عبداللہ شاہ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا۔ کمانڈر عبد اللہ شاہ کا تعلق شکتوئی سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے کمانڈر ذاکر کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ تاہم آزاد ذرائع سے تا حال کسی ہائی پروفائل عسکریت پسند کے ہلاک یا زخمی ہونے کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

ان کے بقول ٹی ٹی پی نے کمانڈر عبد اللہ شاہ کی ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ صحیح سلامت ہیں۔

یہ ویڈیو وائس آف امریکہ کو بھی موصول ہوئی ہے تاہم اس کی ریکارڈنگ کی تاریخ واضح نہیں ہے۔

افتخار فردوس کا مزید کہنا تھا کہ نقصانات کا اندازہ اس لیے بھی نہیں ہو سکتا کیوں کہ ان کارروائیوں کے بعد شمالی وزیرستان، خرلاچی اور انگور اڈہ کے دونوں اطراف شدید فائرنگ اور شیلنگ ہوئی ہے جس کے باعث سرحد کے دونوں اطراف مواصلات کا نظام بند ہو چکا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے علاقے شمالی وزیرستان سے متصل افغانستان کا صوبہ خوست ہے جب کہ جنوبی وزیرستان سے متصل صوبہ پکتیکا کی حدود ہیں۔

فضائی حملوں کے بعد حالات خراب ہونے کا اندیشہ

افتخار فردوس نے کہا کہ صوبہ پکتیکا میں ٹی ٹی پی جب کہ خوست میں حافظ گل بہادر گروپس کے جنگجو موجود ہیں اور ان دو مقامات کو نشانہ بنائے جانے سے اہداف صاف ظاہر ہیں کہ ان کا نشانہ کون تھے۔

تاہم ایڈیٹر خراسان ڈائری کا کہنا تھا فضائی حملوں کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ حالات خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

یاد رہے کہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے فضائی حملوں کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کو اپنی سر زمین پر ہونے والے واقعات اور مسائل پر قابو پانے میں ناکامی کا الزام افغانستان پر نہیں لگانا چاہیے ۔

ان کے بقول ایسے واقعات کے بہت نتائج برے ہو سکتے ہیں اور پھر یہ پاکستان کے کنٹرول سے باہر ہو جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ امارت اسلامیہ افغانستان کسی کو بھی اپنی سر زمین کسی کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔

ٹی ٹی پی کے مختلف گروہوں کے اتحاد کی کوشش

افغان طالبان کے ترجمان کے بقول امارت اسلامیہ افغانستان ان حملوں کی شدید مذمت کرتی ہے اور اس لاپروائی کو افغانستان کی سر زمین کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان جسے دنیا کی سپر پاورز کے خلاف جدوجہد کا طویل تجربہ ہے کسی کو اپنی سر زمین پر حملے کی اجازت نہیں دے سکتی۔

افتخار فردوس کے مطابق ذبیح اللہ مجاہد کے اس بیان کے بعد پاکستان کے مسائل گمبھیر ہو سکتے ہیں کیوں کہ حافظ گل بہادر گروپ اور ٹی ٹی پی کے درمیان گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں 17 سے زائد جرگے ہو چکے ہیں جس میں وہ ایک ہی چھتری تلے ہونے کی بات چیت میں مصروف ہیں۔

ان کے بقول اس عرصے میں دونوں گروہوں کی جانب سے پاکستان کے اندر لگ بھگ 12 حملے بھی کیے گئے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG