کراچی: نام میں 'سیّد' کیوں شامل کیا؟ احمدی وکیل کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ

فائل فوٹو

پولیس نے ایک احمدی وکیل کی جانب سے اپنے نام میں لفظ "سیّد" استعمال کرنے پر اُن کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ وکیل پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے دیگر اسلامی شعائر کا بھی استعمال کیا جس کی ملک میں رائج توہینِ مذہب قوانین میں اجازت نہیں ہے۔

کراچی سٹی کورٹ پولیس اسٹیشن میں ایک شہری محمد احمد نے شکایت درج کراتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ علی احمد طارق ایڈووکیٹ نے عدالت میں دائر اپنی ایک درخواست میں اپنے نام کے ساتھ "سیّد" کے علاوہ بسم اللہ اور دورد شریف تحریر کیا ہے۔

درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ پاکستان کے آئین اور تعزیرات کے تحت احمدی کمیونٹی اسلامی شعائر استعمال نہیں کرسکتی۔ اس لیے ایسا کرنے پر انہیں قانون کے تحت سزا دی جائے۔

آئین پاکستان میں 1974 میں کی جانے والی ایک ترمیم کے تحت آئین کی شق 260 (3) کے تحت قادیانی اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔

اسی طرح پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 298 سی کے تحت بھی قادیانی/احمدی گروپ خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتے اور نہ ہی اپنا مذہب اسلام ظاہر کرسکتے۔


ایف آئی آر درج کرنے سے قبل وکلا نے کراچی سٹی کورٹ تھانے کا گھیراؤ کیا اور پولیس سے ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس دوران ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وکلا نے پولیس کو ایف آر درج نہ کرنے پر ایک گھنٹے کا الٹی میٹم بھی دیا۔

پولیس نے مدعی کی ایف آر درج کرتے ہوئے وکیل سمیت سات افراد کو نامزد کیا ہے۔ لیکن پولیس کو دھمکیاں دیے جانے کے معاملے پر اب تک کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔

اس ایف آئی آر کے اندراج سے قبل 26 ستمبر کو اسی شہری محمد احمد ہی کی مدعیت میں عدالتی حکم کے نتیجے میں ایک اور ایف آئی آر بھی کاٹی گئی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ مارٹن کوارٹر کی حدود میں قادیانی کمیونٹی نے ایسی عبادت گاہ بنا رکھی ہے جو مسجد جیسی لگتی ہے۔

درخواست گزار کے مطابق کئی مسلمان مسجد سمجھ کر دھوکے سے وہاں نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں۔ ایسا کرنا مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے اور امتناع قادیانیت آرڈیننس 1984کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے اس جگہ کو سیل کیا جائے اور اس پر قائم مسجد جیسی نشانیاں جیسا کہ مینارختم کیے جائیں۔

SEE ALSO: احمدی کمیونٹی کی دربدری کے 75 سال 'ایسے لگتاہے ایک رات میں ہی کسی نے سڑک پر لا بٹھایا ہو'

توہینِ مذہب کی دفعات کے تحت اس مقدمے کے اندراج میں بھی پولیس کی جانب سے چھ افراد کو نامزد کیا گیا تھا جس کی سماعت پیر کے روز جوڈیشل مجسٹریٹ ایسٹ کی عدالت میں جاری تھی۔

ملزمان نے ضابطہ فوج داری کی دفعہ 249 اے کے تحت درخواست دائر کررکھی تھی جس کے تحت مجسٹریٹ کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ملزمان پر عدم ثبوت کی بنا پر مقدمہ ختم کرسکتا ہے۔

احمدی کمیونٹی اکثر پاکستان میں مذہب کے نام پر اُنہیں ہراساں کیے جانے کی شکایات کرتی آئی ہے۔

انجمن احمدیہ پاکستان کے انچارج پریس سیکشن عامر محمود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نام کی بنیاد پر ایف آئی آر کے اندراج کو المیہ قرار دیا اور کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ احمدی کمیونٹی کے خلاف پاکستان میں عدم برداشت کی سطح کئی گنا بڑھ چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ والدین کے دیے ہوئے نام پر مقدمے کا اندراج پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو ظاہر کرتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ احمدی اب اپنی پسند کے نام بھی نہیں رکھ سکیں گے۔

ادھر پولیس حکام نے ایف آئی آر کے اندراج کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں تفتیش جاری ہے اور ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔

دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن کی سابق چئیرپرسن اور سرگرم کارکن زہرہ یوسف نے مقدمے کے اندراج کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ احمدی کمیونٹی کے خلاف جرائم کو توہین مذہب قوانین میں ترمیم کرکے ماضی میں قانونی شکل دے دی گئی۔

انہوں نے کہا ایسا لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ انتہا پسندی کے ایسے خطرناک راستے پر گامزن ہے جس سے واپسی کا راستہ نکالنا انتہائی مشکل ہے۔

زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ پنجاب میں احمدی کمیونٹی کو دیوار سے لگانے کے لیے نکاح نامے میں بھی ترمیم سمیت سلیبس میں تبدیلیاں خوفناک ثابت ہوسکتی ہیں۔

انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی عالمی تنظیمیں پاکستان میں احمدیوں سمیت تمام اقلیتوں کی مذہبی آزادی کے لیے آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ وہ یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ حکومت اقلیتوں کے خلاف منافرت کو سختی سے روکے۔

ماضی میں اس نوعیت کے واقعات پر حکومتِ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ملک میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو مساوی حقوق اور تحفظ حاصل ہے۔ لہذٰا مذہب کے نام پر کسی کی جان لینے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔