مشہور ٹیکنالوجی کمپنی گوگل نے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا ماڈل تیار کیا ہے جس سے متعلق ان کا دعویٰ ہے کہ وہ خواتین میں چھاتی کے سرطان کی تشخیص کر سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق گوگل ہیلتھ کے تحقیق کاروں نے کہا ہے کہ ان کا ایک کمپیوٹر پروگرام معمول کے چیک اپ کے دوران خواتین میں بریسٹ کینسر کی درستگی سے تشخیص کر سکتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ اس پروگرام کی کامیابی دنیا بھر میں بریسٹ کینسر کے موذی مرض کو کم کرنے کا سبب بنے گی۔
خیال رہے کہ بریسٹ کینسر خواتین میں پھیلنے والے سرطانوں میں سب سے عام مرض ہے۔ صرف گزشتہ ایک سال میں دنیا بھر میں 20 لاکھ سے زائد خواتین میں چھاتی کے سرطان کی تشخیص ہوئی ہے۔
چھاتی کے سرطان کی ابتدائی مراحل میں تشخیص انتہائی مشکل کام ہے۔ اس کے لیے باقاعدگی سے معائنہ کرانا بھی ضروری ہے۔
چھاتی کے سرطان کی تشخیص کے لیے خواتین کو میموگرافی کے عمل سے گزرنا ہوتا ہے جس میں ایکسرے کی طرز پر اسکین کیا جاتا ہے۔ اور پھر ریڈیالوجی کے ماہرین رپورٹ کے جائزے کے بعد مرض ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
تاہم تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ اس عمل سے بریسٹ کینسر کی تشخیص کافی مشکل ہے۔ جس میں غلطی کا امکان بھی موجود رہتا ہے۔ بعض اوقات میمو گرامز میں بھی کوئی ایسی خامی آ جاتی جس سے کسی صحت مند شخص کو کینسر کا مریض قرار دیا جانے کا خدشہ رہتا ہے۔
گوگل ہیلتھ کے تحقیق کاروں کی ٹیم نے کہا ہے کہ اب ان کے کمپیوٹر پروگرام سے امریکہ اور برطانیہ کی ہزاروں خواتین میں چھاتی کے سرطان کی تشخیص ایک عام اسکین کے ذریعے ممکن ہو سکے گی۔
برطانیہ میں تمام میموگرامز کا ریڈیالوجی کے دو ماہرین جائزہ لیتے ہیں جس کے بعد دونوں اپنی رائے کے مطابق مرض ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لیکن اس عمل میں چونکہ دو ڈاکٹروں کا ہونا لازمی ہے۔ لہٰذا یہ مہنگا ہونے کے ساتھ افرادی قوت بھی بڑھاتا ہے۔
گوگل ہیلتھ کی ٹیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے پروگرام کو ریڈیالوجی کے ماہرین کے فیصلوں کی روشنی میں بھی پرکھا ہے۔ لہٰذا افرادی قوت میں کمی کے لیے بھی یہ ٹیکنالوجی اس صورت میں معاون ثابت ہوگی کہ پہلا جائزہ مصنوعی ذہانت کے پروگرام سے لیا جائے اور پھر ایک ڈاکٹر دوبارہ اس کا جائزہ لے کر فیصلہ کر سکتا ہے۔