ایمنسٹی انٹرنیشل کی رپورٹ کے مطابق، 2012ء میں 21 ممالک میں 682قیدیوں کو سنائی گئی موت کی سزا پر عمل کیا گیا۔ چین، ایران، عراق، سعودی عرب، امریکہ اور یمن میں گذشتہ سال بھی سب سے زیادہ سزائے موت کے فیصلوں پر عمل کرنے والے ممالک میں سرِ فہرست رہے
گذشتہ سال دنیا بھر میں دی گئی سزائے موت پر سالانہ جائزہ رپورٹ میں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ اقوام ِ عالم کا سزائے موت کے مکمل خاتمے کی جانب سفر جاری ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشل کی رپورٹ کے مطابق، گذشتہ سال 2012ء میں 21 ممالک میں 682 قیدیوں کو سنائی گئی موت کی سزا پر عمل کیا گیا۔ چین، ایران، عراق، سعودی عرب، امریکہ اور یمن میں گذشتہ سال بھی سب سے زیادہ سزائے موت کے فیصلوں پر عمل کرنے والے ممالک میں سرِ فہرست رہے۔
سنہ 2012میںٕ 682 افرادکی سزائے موت پر عمل کیا گیا،جب کہ 58ممالک نے 1700سے زائد افراد کو موت کی سزا سنائی گئی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، چین کی جانب سے سزائے موت خفیہ رکھنے کے باعث حالیہ جائزہ رپورٹ میں چین کے اعداد و شمار کو شامل نہیں کیا جا سکا۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے عہدے دار، جان وِٹزل نے پاکستان، بھارت اور جاپان میں ایک طویل عرصے کے بعد سزائے موت پر عمل کرنے کو باعثِ تشویش قرار دیا۔
گذشتہ سال بھارت میں ممبئی حملوں میں ملوث اجمل قصاب اور رراں سال کشمیری باشندے افضل گورو کو سنائی گئی موت کی سزا پر عمل کیا گیا۔ اس سے قبل، بھارت میں آخری بار 2003ء میں سزائے موت پر عمل کیا گیا تھا۔
پاکستان میں بھی چار سال کے وقفے کے بعد گذشتہ سال ایک شخص کی سزائے موت پر عمل کیا گیا۔
جان وِٹزل نے افضل گورو کو دی گئی سزائے موت کی مزمت کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف افضل گورو کی میت اُن کے لواحقین کے حوالے نہیں کی گئی بلکہ اُن کی پھانسی کو اُن کے خاندان سے بھی خفیہ رکھا گیا تھا۔ اُن کے بقول، ہم پریشان ہیں ایسے واقعات بھارت میں ہوسکتے ہیں۔
ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق، افغانستان گذشتہ سال سزائے موت پر عمل کرنے والا آٹھواں ملک رہا جو کہ اُن کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ، افغانستان میں 250کے قریب افراد سزائے موت پر عمل درآمد کے منتظر ہیں۔
رپورٹ کےمطابق، سعودی عرب میں گذشتہ سال 79افراد کو سنائی گئی موت کی سزا پر عمل کیا گیا۔ اِن افراد میں 25فی صد پر منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات تھے۔
جان کے الفاظ میں، بین الاقوامی قوانین قتل کے علاوہ کسی اور جرم میں سزائے موت کی اجازت نہیں دیتے۔ حقیقت میں سعودی عرب میں منشیات اسمگلنگ کے الزامات کے تحت 2012ء میں سنائی گئی موت کی سزاؤں میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے جو کہ ایمنسٹی کے لیے باعث تشویش ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشل کی رپورٹ کے مطابق، گذشتہ سال 2012ء میں 21 ممالک میں 682 قیدیوں کو سنائی گئی موت کی سزا پر عمل کیا گیا۔ چین، ایران، عراق، سعودی عرب، امریکہ اور یمن میں گذشتہ سال بھی سب سے زیادہ سزائے موت کے فیصلوں پر عمل کرنے والے ممالک میں سرِ فہرست رہے۔
سنہ 2012میںٕ 682 افرادکی سزائے موت پر عمل کیا گیا،جب کہ 58ممالک نے 1700سے زائد افراد کو موت کی سزا سنائی گئی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، چین کی جانب سے سزائے موت خفیہ رکھنے کے باعث حالیہ جائزہ رپورٹ میں چین کے اعداد و شمار کو شامل نہیں کیا جا سکا۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے عہدے دار، جان وِٹزل نے پاکستان، بھارت اور جاپان میں ایک طویل عرصے کے بعد سزائے موت پر عمل کرنے کو باعثِ تشویش قرار دیا۔
گذشتہ سال بھارت میں ممبئی حملوں میں ملوث اجمل قصاب اور رراں سال کشمیری باشندے افضل گورو کو سنائی گئی موت کی سزا پر عمل کیا گیا۔ اس سے قبل، بھارت میں آخری بار 2003ء میں سزائے موت پر عمل کیا گیا تھا۔
پاکستان میں بھی چار سال کے وقفے کے بعد گذشتہ سال ایک شخص کی سزائے موت پر عمل کیا گیا۔
جان وِٹزل نے افضل گورو کو دی گئی سزائے موت کی مزمت کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف افضل گورو کی میت اُن کے لواحقین کے حوالے نہیں کی گئی بلکہ اُن کی پھانسی کو اُن کے خاندان سے بھی خفیہ رکھا گیا تھا۔ اُن کے بقول، ہم پریشان ہیں ایسے واقعات بھارت میں ہوسکتے ہیں۔
ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق، افغانستان گذشتہ سال سزائے موت پر عمل کرنے والا آٹھواں ملک رہا جو کہ اُن کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ، افغانستان میں 250کے قریب افراد سزائے موت پر عمل درآمد کے منتظر ہیں۔
رپورٹ کےمطابق، سعودی عرب میں گذشتہ سال 79افراد کو سنائی گئی موت کی سزا پر عمل کیا گیا۔ اِن افراد میں 25فی صد پر منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات تھے۔
جان کے الفاظ میں، بین الاقوامی قوانین قتل کے علاوہ کسی اور جرم میں سزائے موت کی اجازت نہیں دیتے۔ حقیقت میں سعودی عرب میں منشیات اسمگلنگ کے الزامات کے تحت 2012ء میں سنائی گئی موت کی سزاؤں میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے جو کہ ایمنسٹی کے لیے باعث تشویش ہے۔