امریکہ میں قائم ایک تنظیم نے، جو سزائے موت کاریکارڈ رکھتی ہے، کہاہے کہ اس سال امریکہ میں گذشتہ دو عشروں کے دوران سب سے کم موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
منگل کے روز واشنگٹن میں قائم ’ ڈیتھ پینلٹی انفارمیشن سینٹر‘ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2012 کے دوران امریکہ میں دی جانے والی موت کی سزاؤں کی تعداد گذشتہ 20 سال کے دوران سب سے کم رہی۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ 2012 میں 43 قیدیوں کی سزائے موت پر عمل درآمد ہوا جن میں سے تین چوتھائی کا تعلق چار امریکی ریاستوں سے تھا۔
سب سے زیادہ موت کی سزائیں ریاست ٹیکساس میں دی گئیں جن کی تعداد 15 ہے جب کہ اس کے بعد ایری زونا اور اوکلا ہاما کے نمبر آتے ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں چھ چھ افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں گذشتہ سال بھی چھ چھ افراد کو یہ انتہائی سزائیں دی گئیں تھیں۔
2012 میں پچاس امریکی ریاستوں میں سے صرف نو میں موت کی سزائیں دی گئیں جو 20 سال کی کم ترین سطح ہے۔
1976 میں موت کی سزابحال کرنے کے بعد یہ اس مسئلے کے حق اور مخالفت میں آج بھی دلائل جاری ہیں۔ اور اس سزا کے حامیوں اور مخالفین کی تعداد کچھ کم نہیں ہے۔
تنظیم کا کہناہے کہ گذشتہ پانچ سال کے عرصے میں نصف سے زیادہ ریاستوں میں کسی بھی قیدی کو موت کی سزا نہیں دی گئی ۔
لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ امریکہ ان پانچ ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ موت کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ ایمنسٹی کی مارچ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیاتھا کہ موت کی سزاؤں کے لحاظ سے چین دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے۔ جب کہ اس کے بعد ایران، سعودی عرب، عراق اور پھر امریکہ کا نمبر آتا ہے۔
منگل کے روز واشنگٹن میں قائم ’ ڈیتھ پینلٹی انفارمیشن سینٹر‘ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2012 کے دوران امریکہ میں دی جانے والی موت کی سزاؤں کی تعداد گذشتہ 20 سال کے دوران سب سے کم رہی۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ 2012 میں 43 قیدیوں کی سزائے موت پر عمل درآمد ہوا جن میں سے تین چوتھائی کا تعلق چار امریکی ریاستوں سے تھا۔
سب سے زیادہ موت کی سزائیں ریاست ٹیکساس میں دی گئیں جن کی تعداد 15 ہے جب کہ اس کے بعد ایری زونا اور اوکلا ہاما کے نمبر آتے ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں چھ چھ افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں گذشتہ سال بھی چھ چھ افراد کو یہ انتہائی سزائیں دی گئیں تھیں۔
2012 میں پچاس امریکی ریاستوں میں سے صرف نو میں موت کی سزائیں دی گئیں جو 20 سال کی کم ترین سطح ہے۔
1976 میں موت کی سزابحال کرنے کے بعد یہ اس مسئلے کے حق اور مخالفت میں آج بھی دلائل جاری ہیں۔ اور اس سزا کے حامیوں اور مخالفین کی تعداد کچھ کم نہیں ہے۔
تنظیم کا کہناہے کہ گذشتہ پانچ سال کے عرصے میں نصف سے زیادہ ریاستوں میں کسی بھی قیدی کو موت کی سزا نہیں دی گئی ۔
لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ امریکہ ان پانچ ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ موت کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ ایمنسٹی کی مارچ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیاتھا کہ موت کی سزاؤں کے لحاظ سے چین دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے۔ جب کہ اس کے بعد ایران، سعودی عرب، عراق اور پھر امریکہ کا نمبر آتا ہے۔