ایک عالمی امدادی ایجنسی نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکام نے اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے 280 خاندانوں یا لگ بھگ 1700 افراد کو کابل میں ایک عارضی بستی سے بے دخل کرکے عالمی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہے اور اس بستی کو منہدم کردیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے لیے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق نارویجین ریفیوجی کونسل (این آر سی ) نےمنگل کو بے دخلی کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ متاثرہ خاندانوں نے فیلڈ اسٹاف کو بتایا کہ انہیں "صدمے کے عالم" میں انخلا کرنا پڑا۔
کونسل نے رپورٹ کیا کہ افغان دارالحکومت کے باہر پل شینا کے علاقے میں انخلا کے دوران دو بچوں کی اموات ہوئیں جس میں سے ایک کی عمر چار اور دوسرے کی 15 سال تھی۔
این آر سی کے بیان میں کہا گیا کہ نکالے گئے خاندان گلی میں انتظار کرتے رہے جب کہ انسانی ہمدردی کی ایجنسیوں کو وہاں جانے سے روک دیا گیا۔
ایجنسی کو ان بچوں کی ہلاکت کی وجہ فوری طور پر معلوم نہیں ہوسکی۔
کابل میونسپلٹی کے ترجمان نعمت اللہ بارکزئی نے کلیئرنس آپریشن کے دوران اموات یا مکانات مسمارکیے جانے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس علاقہ پرغیر قانونی طور پر قبضہ کیا گیا تھا۔
ایک ٹویٹ میں نارویجین ریفیوجی کونسل نے کہا ہے کہ یہ تعداد دو ہزار تک ہوسکتی ہے۔
افغانستان میں کونسل کے کاؤنٹی ڈائریکٹر نیل ٹرنر نے کہا کہ "انتہائی غریب خاندانوں کو بے دخل کرکے، کابل کے حکام نے افغانستان میں بے گھر خاندانوں کے مصائب کی طویل کتاب میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔"
امدادی گروپ نےانتباہ کیا ہے کہ اگر اس عمل کو نہ روکا گیا تو یہ پالیسی تقریباً 20 لاکھ افراد کو متاثر کرے گی جو غریب بستیوں میں عام طور پر ہولناک حالات میں رہتے ہیں اور اکثر زندہ رہنے کے لیے اکثر انسانی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔
ٹرنر کے بقول"اندرونی طور پر بے گھر لوگ جو ان بستیوں میں رہ رہے ہیں وہ پہلے ہی اپنی بقا کے لیے جدو جہد کر رہےہیں اور معاشی بحران سے نبرد آزما ہیں - اس سے سنگین خدشات پیدا ہوتے ہیں کہ بے دخلی پہلے سے موجود انتہائی بڑی انسانی ضروریات کو مزید بڑھا دے گی۔"
ٹرنر نے طالبان حکام پر زور دیا کہ وہ مزید بے دخلی کو روکیں اور بین الاقوامی اور انسانی حقوق کے قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں ۔