پاکستانی ڈرامہ دیکھتا تو ہر کوئی ہے، مگر ایک عام رائے یہ ہے کہ اس کامعیار اس قدر بلند نہیں رہا، جس قدر اب سے چند سال پہلے ہوا کرتا تھا۔
پاکستانی ڈرامے مقبول اور منافع بخش اب بھی ہیں، لیکن دنیا بھر میں پاکستانی ڈرامہ دیکھنے والےصارفین اکثر سوشل میڈیا پر یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ان ڈراموں میں خواتین کے کردار محدود سوچ کے حامل اور اپنی تقدیر کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرتے نظر آتے ہیں۔ ہیروئن کی کہانی کو اچھی اینڈنگ تب ہی ملتی ہے، جب وہ خود کو تکلیف دینے والے ہیرو کی زیادتیاں برداشت کرکے اسے قبول کرنے پر راضی ہو جاتی ہے۔ اچھی لڑکی وہی ہوتی ہے، جو خاموشی اور صبر سے ساس کی چالاکیاں اور نند کی زیادتیاں برداشت کرتے کرتے بچوں کی زبان درازیاں بھی برداشت کرنے میں زندگی گزار دیتی ہے۔
اس ہفتے وائس آف امریکہ کے ہفتہ وار پروگرام ’ع مطابق‘ میں گفتگو کا موضوع تھا، پاکستانی ڈراموں میں خواتین کے کردار، ایک ہی طرح کی کہانیوں اور اچھوتے موضوعات کا فقدان جس میں معروف اداکارہ فریال محمود اور مصنف اور ڈرامہ کانٹینٹ کے ماہر علی عمران نے شرکت کی۔
’ع مطابق‘ کی نئی قسط ہرپیر کی رات وی او اے اردو کے فیس بک اور یو ٹیوب پر جاری کی جاتی ہے۔ آپ اس کی موجودہ قسط نیچے دیے گیے لنک پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔
پاکستانی ڈرامے کے ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو کئی ایسے کردار نظر آئیں گے، جنہوں نے پاکستانی لڑکی کو کچھ کر دکھانے کے خواب دیکھنے پر مجبور کیا۔اَن کہی کی پرعزم ثنا مراد ہو، اپنی دوست کو ہمت دلانے والی ڈرامہ آہٹ کی ناہید۔ تنہائیاں کی زارا، سنیہ اور آنی ہوں یا پھر ویڈا. شہزوری کی الہڑ اور بے باک تارا ہو یا پھر بندش کی تانیہ۔ اور پھر دھوپ کنارے کی وہ ڈاکٹر زویا جسے دیکھ کر ہر پاکستانی لڑکی کے دل میں ڈاکٹر بننے کی خواہش جاگی۔
پاکستانی ناظرین اس دور کو ٹی وی ڈراموں کا سنہری دور قرار دے کر آج بھی یاد کرتے ہیں جب ڈرامہ نشر ہونے کے وقت شہروں کی سڑکیں سنسان ہو جایا کرتی تھیں۔
ان ڈراموں میں انٹرٹینمنٹ کے ساتھ رومانس بھی ہوتا تھا اورسماجی مسائل بھی بخوبی اجاگر کیے جاتے تھے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی مضبوط کرداروں میں نظر آتی تھیں خواہ وہ کردارماں کا ہو، ساس کا، بہن، دوست یا خود ہیروئن کا۔
پاکستانی ڈرامے اُس وقت بھی صرف پاکستان ہی نہیں پورے برصغیر میں مشہور تھے۔ بھارت میں لوگ ان ڈراموں کے نشر ہونے کے وقت اپنے اپنے ٹی وی سیٹس کے اینٹینےاونچے کر کر کے پاکستانی ڈرامے وقت پر دیکھنے کی کوشش کرتے۔
پاکستانی ڈرامے اب بھی دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے مقبول ہیں لیکن اگر آپ ان ناظرین سے پوچھیں جو ڈراموں کا سنہرا دور دیکھ چکے ہیں تو اکثر کا یہی کہنا ہوگا کہ اب کے ڈراموں میں وہ پہلی سی بات نہیں۔
حالانکہ پہلے کے مقابلے میں ڈراموں میں نہ صرف اب گلیمر بڑھ گیا ہے بلکہ ٹیکنالوجی بدلنے سے پروڈکشن کا معیار بھی بہت بہتر ہوا ہے۔ مگراکثر ناظرین یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ہائی ڈیفینیشن میں چلنے والے بعض ڈراموں میں کرداروں اور کہانیوں کی کوالٹی گر چکی ہے۔
بعض لوگوں کے نزدیک یہ تمام گڑ بڑ اس دور میں شروع ہوئی جب پرائیویٹ انٹرٹینمنٹ چینلز نے بھارتی سوپ اوپراز کا مقابلہ کرکے اپنے ملک کا ناظراپنی جانب راغب رکھنے کی کوشش کی۔
سوپ اوپراز والا یہ فارمولا زیادہ عرصے نہیں چل پایا لیکن اس کے بعد متعارف کروائے گئے چھ سے نو ماہ چلنے والے ہفتہ وار ڈراموں نے اپنی جگہ بنا لی۔ پاکستانی اور بھارتی ڈراموں کا تقابلی جائزہ لیں تو پاکستانی ڈرامے اب بھی بھارتی ڈراموں سے بہتر قرار دیے جاتے ہیں مگر کہانیاں اور کردار بالخصوص خواتین کے کردار دیکھیں تو ناقدین کو محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستانی معاشرہ ترقی نہیں تنزلی کی راہ پر گامزن ہے۔
80 کی دہائی کی عورت مسائل کے باوجود اپنی جدوجہد پر یقین رکھتی تھی۔ آج کے اکثر ڈراموں میں عورت مظلوم ہے، لاچار ہے اور مرد کےسہارے اور اس کی نظر کرم کی منتظر۔
کبھی کبھارڈراموں میں خواتین کے مضبوط کردار بھی نظر آتے ہیں، جیسے 'صنف آہن' ، یا 'پری زاد'۔مگر اس وقت پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری جتنی بڑی ہے اور جتنا مواد اس پر نشر کیا جاتا ہے اس کے مقابلے میں مضبوط اور خودمختاری کی علامت سمجھے جانے والےخواتین کردار انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ناقدین کا خیال ہے کہ یہ زیادتی صرف خواتین کے کرداروں کے ساتھ ہی نہیں مردوں کے کرداروں کے ساتھ بھی کی جا رہی ہے۔
زیادہ تر ڈراموں میں کہیں ساس سازشی ہے تو کہیں بہو چالاک، کہیں نند نے جینا دو بھر کیا ہوا ہے تو کہیں ایک عورت دوسری عورت کا شوہر چھیننے میں مصروف ہے۔ان سب سازشی نظریات کی حامل عورتوں کی کہانیاں ، جن مرد کرداروں کے گرد گھومتی ہیں، وہ بھی اتنے ہی ناقص اور فاطر العقل نظر آتے ہیں۔شکی، بزدل، کانوں کے کچے، بری زبان اور برتاؤ کے حامل، لڑکیوں کی تعلیم اور ملازمت کو گناہ سمجھنے والے۔ایسے مرد، جو گھر کے کچن میں کھانا پکانے والی ماں، بیوی یا بہن کو کھڑکی سے باہر جھانکنے اور کھلے آسمان کی طرف دیکھنے کی اجازت دینے کے روادار نہیں۔
اب سے کچھ عرصہ قبل ہی مصنفہ نمرہ احمد نیازی اپنی سوشل میڈیا پوسٹ پر پاکستانی ڈراموں میں تشدد اور ہراسانی کو گلیمرائز کرنے پر احتجاج کرتی نظر آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں یہ کیسے قابل قبول ہے کہ بیوی کو تھپڑ مارنے والا یا بالوں سے گھسیٹنے والا بھی ہیرو ہے، لڑکی کا مسلسل تعاقب کر کے اسے ہراساں کرنے والا ، اسے اغوا کر کے نکاح ، یا ریپ کر کے شادی کی پیشکش کرنے والا بھی ہیرو ہے۔ یہ یک رخی تصویر کشی اور کمزور کہانی کاری ، صرف عورتوں کے لیے نہیں، مرد ناظرین کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی، ایسا کہنا ہے ناقدین کا ، جو ٹیلی ویژن کی اسکرین پر ایسے کرداروں کو جگہ دینے پر ٹی وی چینلز کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
بلبلے جیسا مزاحیہ ڈرامہ لکھنے والے مصنف علی عمران جو اس وقت ملک کے ایک بڑے انٹرٹینمنٹ چینل میں کانٹینٹ ہیڈ ہیں،کہتے ہیں کہ ڈرامہ معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ جب معاشرہ تبدیل ہوگا تو ڈراموں کا رخ بھی تبدیل ہو جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا عورت اچھی یا بری، مظلوم یا ظالم کے علاوہ اور کچھ نہیں؟ پاکستانی ڈراموں کی مقبول اداکارہ فریال محمود کہتی ہیں کہ اگر انسانی زندگی کو غور سے دیکھیں تو انسان ہر وقت اچھا یا برا نہیں ہوتا بلکہ حالات کے مطابق اس کا رد عمل اچھا اور برا نظر آتا ہے ،مگر پاکستانی ڈراموں میں انسانی نفسیات کو نظر انداز کرکے انتہائی سطحی کردار مرتب کیے جاتے ہیں ۔ انہوں نے اس موقعے پر اپنے ڈرامے 'رقیب سے' کا ذکر کیا، بی گل کے لکھے اس ڈرامے کو پاکستان میں ہی نہیں بیرون ملک سے بھی پذیرائی ملی۔
لیکن فریال محمود کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی ایک ڈرامہ سالہا سال کے بعدہی بنانے کی جرات کی جاتی ہے۔
پاکستانی ڈراموں کی یہ خامی علی عمران بھی مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈرامہ انڈسٹری جس تیزی سے پھیلی ہے اس کا پیٹ بھرنے کے لیے اتنا ہی مواد درکار ہوتا ہے۔ جہاں مقدار بڑھ گئی ہے وہیں معیار یقیناًً گر گیا ہے۔
علی عمران یہ بھی کہتے ہیں کہ چینل مالکان کے لیے یہ کاروبار ہے اور ان کا مقصد پیسہ کمانا ہے جو فارمولہ کام کر گیا ہے سب اسی کو بار بار استعمال کرنے میں لگے ہیں، جب تک کہ وہ فارمولہ ناکام ثابت نہ ہو جائے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ فرسودہ موضوعات سے ہٹ کر لکھنے والے ڈرامہ رائٹرز، ڈائریکٹرز اور اداکاروں کو اپنے مؤقف پر مضبوط رہنا ہوگا۔ ایسے ڈرامے ضرور بنائیں جو کمرشل نہ ہوں، کسی ایک چینل پر نہیں تو دوسرے پر چل جائیں گے۔ ماحول تبدیل کرنے کے لیے ایسا کرنابہت ضروری ہے۔
انہوں نے بھارتی سنیما کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بھارت میں برسوں سے گانوں اور رقص سے بھرپور فلموں کو مین اسٹریم کہا جاتا رہا جبکہ حقیقت کے قریب تر کہانیوں کو آرٹ موویز کہہ کر الگ کر دیا گیا، مگر کام کرنے والے اپنے کام سے نہیں رکے اور آج وہی فلمیں کمرشل سنیما میں بہت اچھا پرفارم کرتی نظر آرہی ہیں۔
ایسے وقت میں جب ڈرامے مقبول بھی ہیں اور کامیاب بھی جہاں اداکار اور ہدایت کارسے لے کرسرمایہ کار تک پیسہ کما رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ معیار کے سوال کو حل کرنے میں کون کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟ شاید مختلف اور جداگانہ کام کرنے والے ہدایت کاروں اور خواتین کے مضبوط کردار کے خواہش مندوں کو اپنی ایسی پراڈکٹس بین الاقوامی اسٹریمنگ سروسز کو پیش کرنی ہوں گی جہاں مانگ ہی ایسے مواد کی ہے جو فارمولے سے ہٹ کر ہو۔آپ کیا کہتے ہیں؟ اپنی رائے ہم سے شیئرکیجئے ۔