امریکہ میں پاکستانی سفیر، اعزاز احمد چودھری نے کہا ہے کہ ’لشکر طیبہ‘ پر پاکستان میں بھی بندش عائد ہے، جب کہ ’ملی مسلم لیگ‘ الیکشن کمیشن میں اپنا اندراج کرانے کی کوشاں رہی ہے تاکہ وہ انتخابات میں شریک ہو سکے۔ اِس ضمن میں، اُنھوں نے کہا کہ ’’حکومت پاکستان کے اپنے تحفظات ہیں، جنھیں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے‘‘۔
اُنھوں نے یہ بات جمعے کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔ اُن سے ’جماعة الدعوہ‘، ’لشکر طیبہ‘ اور ’ملی مسلم لیگ‘ کو امریکہ کی جانب سےغیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی خصوصی فہرست میں شامل کیے جانے کے بارے میں سوال پوچھا گیا تھا۔
پاکستان میں عدالتوں کے کردار پر سفیر نے کہا کہ ’’کسی بھی جمہوریت میں، قانون کی حکمرانی کی اولین اہمیت ہوا کرتی ہے، جو کردار وہ ملک میں ادا کر رہی ہیں‘‘۔
بقول اُن کے، ’’عدالتی عمل کے حوالے سے میں کسی قسم کی رائے زنی نہیں کر سکتا‘‘، اور یہ کہ ’’قانون کے حکمرانی کے عمل کو ہی سب باتوں پر سبقت حاصل ہوتی ہے‘‘۔
حالیہ دِنوں کے دوران امریکہ کی جانب سے کالعدم تنظیم 'جماعت الدعوۃ' سے تعلق رکھنے کے الزام پر 'ملی مسلم لیگ' کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
افغانستان میں بھارت کے کردار کے بارے میں ایک سوال پر، سفیر نے کہا کہ ’’اگر یہ معیشت اور ترقی تک محدود ہے، تو پاکستان کو اس پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں‘‘۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے کہ وہ افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے، اپنی حکمتِ عملی کے مقاصد کو آگے بڑھائے یا پاکستان کے لیے عدم استحکام کا باعث بنے‘‘۔
اعزاز چودھری نے کہا کہ جب امریکہ نے جنوبی ایشیا کے بارے میں نئی حکمت عملی کا اعلان کیا تھا، اس میں اس بات کا اشارہ دیا گیا تھا کہ افغانستان میں بھارت کا ایک وسیع کردار ہوگا۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کردار کیا ہوگا۔ آیا یہ ترقیاتی نوعیت کا ہوگا؛ معاشی، فوجی یا اسٹریٹجک کردار ہوگا‘‘۔
بقول اُن کے، ’’ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ بھارت افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے اپنے دو مقاصد آگے بڑھا رہا ہے۔ ایک یہ کہ پاکستان کے خلاف دو محاذ والی صورت حال پیدا کی جائے؛ اور دوسرا یہ کہ جاسوس اور عدم استحکام پیدا کرنے والے عناصر بھیج کر پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کی جائیں‘‘۔
بظاہر کلبھوشن جادیو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ ’’حالانکہ وہ افغانستان سے پاکستان میں داخل نہیں ہوئے، وہ بھارتی بحریہ کے حاضر سروس کمانڈر ہیں، جو انٹلی جنس کا کام کیا کرتے تھے‘‘۔