میں لمبی قطار میں کھڑی گاڑیوں کو کراس کرتا ہوا اس جگہ جا پہنچا جہا ں سے گہرا کالا دھواں بلند ہو رہا تھا۔ جلتے ہوہے ٹائروں کے قریب ایک بس بھی کھڑی تھی جس کے شیشیے بری طرح ٹوٹے ہوئے تھے
آج سے تقریباً دو سال قبل میں اپنے گھر سے مظفرآباد جاتے ہوئے ایک روز ٹریفک جام میں پھنس گیا۔ گاڑی سے باہر آیا تو دیکھا کہ ایک صاحب سڑک پر کھڑے کبھی کلائی پہ بندھی گھڑی میں وقت دیکھتے اور کبھی گاڑیوں کی لمبی قطار پر نظر ڈالتے ہیں۔ ان کے چہرے پر شدید پرشانی صاف دیکھی جا سکتی تھی۔
میں ان صاحب کے قریب سے گزرا تو وہ مجھے مخاطب کرکے بولے، "آخر ان لڑکوں کی ہم سے کیا لڑائی ہے؟" میں نے جواباً ان سے ہی سوال کرڈالا کہ مسئلہ کیا ہے اور یہ راستہ کیوں بند ہے؟ وہ پریشانی کے عالم میں کہنے لگے کہ میری بیٹی کے گردے میں شدید تکلیف ہے اور اسے لے کر اسپتال جا رہا تھا۔ وہ درد سے مری جا رہی ہے لیکن کالج کے لڑکوں نے راستہ بند کر رکھا ہے۔ میں نے راستہ بند ہونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
میں لمبی قطار میں کھڑی گاڑیوں کو کراس کرتا ہوا اس جگہ جا پہنچا جہا ں سے گہرا کالا دھواں بلند ہو رہا تھا۔ جلتے ہوئے ٹائروں کے قریب ایک بس کھڑی تھی جس کے شیشیے کرچی کرچی ہوچکے تھے۔ کالج کے ایک درجن سے زائد طلبہ ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
معلومات لینے پر پتا چلا کہ گزشتہ روز اس بس کے ڈرائیور کے ساتھ ایک لڑکے کی کرایہ کے معاملہ پر تلخ کلامی ہو گئی تھی اور آج اس کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ لیکن مجھے اس سارے معاملے پر حیرانی اس لیے نہیں ہوئی کیونکہ جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو خود بھی اسی طرح کی سرگرمیوں کا حصہ رہ چکا تھا اور یہ تو کالج اسٹوڈنٹس کی معمول کی کاروائی تھی۔
یہ واقعہ مجھے اس وقت یاد آیا جب آج سےچند ماہ قبل میں امریکہ کے 'ناردرن ورجینیا کالج' میں اپنے پہلے دن کی کلاس لے کر واپس گھر جانے کے لیے بس اسٹاپ پر کھڑا تھا۔ میرے ساتھ 20 سے زائد دیگر طالبِ علم بھی اسٹاپ پر موجود تھے اور میں یہی سوچ رہا تھا کہ ان سب سے پہلے بس میں کیسے سوار ہوا جائے؟ کیوں کہ ظاہر ہے سیٹ بھی تو پکڑ نی تھی۔
اسی اثناء میں بس آگئی اورمیں بس کے دروازے کی طرف لپکتے لپکتے رہ گیا کیونکہ تمام طلبہ ایک لائن میں کھڑے ہو گئے تھے اور بس سے اترنے والے لوگوں کے اتر جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ نہ کوئی کسی کودھکا دے رہا تھا اور نہ پہلے سوار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔
یہ بات میرے لیے حیران کن تھی۔ میں لائن میں کھڑا تو ہو گیا لیکن سوچ رہا تھا کہ اگر میں جلد بازی میں دروازے کی طرف دوڑ جاتا تو مجھے کتنی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔
اس دن میں قطار میں کھڑا سوچتا رہا کہ یہ کالج کے طلبہ ہیں یا میری نظر کا دھوکا ہے۔ لیکن اب تو گزشتہ تین ماہ سے میں بھی دیگر طالبِ علموں کے ساتھ ایک قطار بنا کر بس پر سوار ہوتا ہوں خواہ بس اسٹاپ پر صر ف تین چار لوگ ہی کیوں نہ کھڑے ہوں۔ امریکہ میں تو کالج کے طالبِ علموں کو کرایہ میں بھی رعایت حاصل نہیں اور نہ گزشتہ تین ماہ میں میں نے کسی طالبِ علم کو سیٹ یا کرایہ کے معاملہ پر کسی سے الجھتے دیکھا۔ امریکن طلبہ سمیت بے شمار ممالک کے طالبِ علم ایک ہی لائن میں کھڑے ہوتے ہیں۔
چونکہ یہاں لوگ ہمیشہ بس کے اگلے دروازے سے سوارہوتے ہیں، لہذا طلبہ سمیت لوگوں کی اکثریت سوارہو کر ڈرائیور کو 'گڈ مارننگ' یا 'گڈ ایوننگ' اور اترتے وقت 'تھینک یو' ضرور کہتی ہے۔ حالانکہ میں بھی اب ایسا ہی کرتا ہوں لیکن پہلی بار خوش اخلاقی کا یہ مظاہرہ دیکھ کر میں حیران ضرور ہوا تھا۔
مجھے امریکی کالجز کے طلبہ کو دیکھ کر اپنے وطن کے وہ بچے بھی یاد آ جاتے ہیں جنھیں بورڈ آفس لاہور کو آگ لگاتے ٹی وی پر ساری دنیا نے دیکھا تھا۔
میں بس اسٹاپ پر کھڑے طلبہ کے سامنے شرمندگی اٹھانے سے تو بچ گیا لیکن اپنے آپ سے آج بھی شرمندہ ہوں کہ ہم مار کٹائی اور برے رویے میں تو سب سے آگے ہیں لیکن تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!
_
عبدل کا امریکہ
میں ان صاحب کے قریب سے گزرا تو وہ مجھے مخاطب کرکے بولے، "آخر ان لڑکوں کی ہم سے کیا لڑائی ہے؟" میں نے جواباً ان سے ہی سوال کرڈالا کہ مسئلہ کیا ہے اور یہ راستہ کیوں بند ہے؟ وہ پریشانی کے عالم میں کہنے لگے کہ میری بیٹی کے گردے میں شدید تکلیف ہے اور اسے لے کر اسپتال جا رہا تھا۔ وہ درد سے مری جا رہی ہے لیکن کالج کے لڑکوں نے راستہ بند کر رکھا ہے۔ میں نے راستہ بند ہونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
میں لمبی قطار میں کھڑی گاڑیوں کو کراس کرتا ہوا اس جگہ جا پہنچا جہا ں سے گہرا کالا دھواں بلند ہو رہا تھا۔ جلتے ہوئے ٹائروں کے قریب ایک بس کھڑی تھی جس کے شیشیے کرچی کرچی ہوچکے تھے۔ کالج کے ایک درجن سے زائد طلبہ ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
معلومات لینے پر پتا چلا کہ گزشتہ روز اس بس کے ڈرائیور کے ساتھ ایک لڑکے کی کرایہ کے معاملہ پر تلخ کلامی ہو گئی تھی اور آج اس کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ لیکن مجھے اس سارے معاملے پر حیرانی اس لیے نہیں ہوئی کیونکہ جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو خود بھی اسی طرح کی سرگرمیوں کا حصہ رہ چکا تھا اور یہ تو کالج اسٹوڈنٹس کی معمول کی کاروائی تھی۔
یہ واقعہ مجھے اس وقت یاد آیا جب آج سےچند ماہ قبل میں امریکہ کے 'ناردرن ورجینیا کالج' میں اپنے پہلے دن کی کلاس لے کر واپس گھر جانے کے لیے بس اسٹاپ پر کھڑا تھا۔ میرے ساتھ 20 سے زائد دیگر طالبِ علم بھی اسٹاپ پر موجود تھے اور میں یہی سوچ رہا تھا کہ ان سب سے پہلے بس میں کیسے سوار ہوا جائے؟ کیوں کہ ظاہر ہے سیٹ بھی تو پکڑ نی تھی۔
اسی اثناء میں بس آگئی اورمیں بس کے دروازے کی طرف لپکتے لپکتے رہ گیا کیونکہ تمام طلبہ ایک لائن میں کھڑے ہو گئے تھے اور بس سے اترنے والے لوگوں کے اتر جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ نہ کوئی کسی کودھکا دے رہا تھا اور نہ پہلے سوار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔
یہ بات میرے لیے حیران کن تھی۔ میں لائن میں کھڑا تو ہو گیا لیکن سوچ رہا تھا کہ اگر میں جلد بازی میں دروازے کی طرف دوڑ جاتا تو مجھے کتنی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔
چونکہ یہاں لوگ ہمیشہ بس کے اگلے دروازے سے سوارہوتے ہیں، لہذا طلبہ سمیت لوگوں کی اکثریت سوارہو کر ڈرائیور کو 'گڈ مارننگ' یا 'گڈ ایوننگ' اور اترتے وقت 'تھینک یو' ضرور کہتی ہے۔ حالانکہ میں بھی اب ایسا ہی کرتا ہوں لیکن پہلی بار خوش اخلاقی کا یہ مظاہرہ دیکھ کر میں حیران ضرور ہوا تھا۔
مجھے امریکی کالجز کے طلبہ کو دیکھ کر اپنے وطن کے وہ بچے بھی یاد آ جاتے ہیں جنھیں بورڈ آفس لاہور کو آگ لگاتے ٹی وی پر ساری دنیا نے دیکھا تھا۔
میں بس اسٹاپ پر کھڑے طلبہ کے سامنے شرمندگی اٹھانے سے تو بچ گیا لیکن اپنے آپ سے آج بھی شرمندہ ہوں کہ ہم مار کٹائی اور برے رویے میں تو سب سے آگے ہیں لیکن تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!
_
عبدل کا امریکہ