شام میں بعض باغی گروپوں کا الزام ہے کہ ’آئی ایس آئی ایل‘ صدر بشار الاسد کی فورسز کے خلاف لڑائی کی بجائے زیادہ طاقت و غلبہ حاصل کرنے میں مصروف ہے۔
القاعدہ نے شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والے جنگجو گروپ سے تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تنظیم نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ وہ ’اسلامک اسٹیٹ آف عراق‘ یا آئی ایس آئی ایل سے تعلق ختم کر رہی ہے۔
اس بیان کے مصدقہ ہونے کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ لیکن جس ویب سائیٹ پر یہ بیان شائع کیا گیا وہاں القاعدہ تنظیم کے بیانات تواتر سے جاری ہوتے رہتے ہیں۔
مشرق ِ وسطیٰ میں پاکستان کے سابق سفیر مشتاق مہر نے وائس آف امریکہ کے ریڈیو شو ’اِن دا نیوز‘ میں اس موضوع پر اظہار ِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ، ’اس وقت خطے میں تبدیلی آ رہی ہے۔ میرے نزدیک دو عناصر واضح ہیں، ایک تو یہ ہے کہ صورتحال بہت پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے اور دوسرا یہ ہے کہ القاعدہ بالعموم اور الظواہری بالخصوص سعودی عرب کی جانب سے مصر میں پیش آنے والے واقعات کے رد ِ عمل سے مطمئن نہیں‘۔
القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے گزشتہ سال ’آئی ایس آئی ایل‘ کو حکم دیا تھا کہ نصرہ فرنٹ سے الگ ہو کر وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے۔ القاعدہ سے منسلک جہادی گروہ نصرہ فرنٹ بھی شام میں لڑائی میں مصروف ہے۔
آئی ایس آئی ایل نے ایمن الظوہری کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے شام میں اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔
شام میں بعض باغی گروپوں کا الزام ہے کہ ’آئی ایس آئی ایل‘ صدر بشار الاسد کی فورسز کے خلاف لڑائی کی بجائے زیادہ طاقت و غلبہ حاصل کرنے میں مصروف ہے۔
آئی ایس آئی ایل کے جنگجوؤں کی اکثر باغی گروپ کے ساتھ بھی جھڑپیں ہوئی ہیں۔ یہ تنظیم ’آئی ایس آئی ایل‘ ایک اور نام یعنی اسلام اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا ’آئی ایس آئی ایس‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔
تنظیم نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ وہ ’اسلامک اسٹیٹ آف عراق‘ یا آئی ایس آئی ایل سے تعلق ختم کر رہی ہے۔
اس بیان کے مصدقہ ہونے کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ لیکن جس ویب سائیٹ پر یہ بیان شائع کیا گیا وہاں القاعدہ تنظیم کے بیانات تواتر سے جاری ہوتے رہتے ہیں۔
مشرق ِ وسطیٰ میں پاکستان کے سابق سفیر مشتاق مہر نے وائس آف امریکہ کے ریڈیو شو ’اِن دا نیوز‘ میں اس موضوع پر اظہار ِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ، ’اس وقت خطے میں تبدیلی آ رہی ہے۔ میرے نزدیک دو عناصر واضح ہیں، ایک تو یہ ہے کہ صورتحال بہت پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے اور دوسرا یہ ہے کہ القاعدہ بالعموم اور الظواہری بالخصوص سعودی عرب کی جانب سے مصر میں پیش آنے والے واقعات کے رد ِ عمل سے مطمئن نہیں‘۔
القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے گزشتہ سال ’آئی ایس آئی ایل‘ کو حکم دیا تھا کہ نصرہ فرنٹ سے الگ ہو کر وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے۔ القاعدہ سے منسلک جہادی گروہ نصرہ فرنٹ بھی شام میں لڑائی میں مصروف ہے۔
آئی ایس آئی ایل نے ایمن الظوہری کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے شام میں اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔
شام میں بعض باغی گروپوں کا الزام ہے کہ ’آئی ایس آئی ایل‘ صدر بشار الاسد کی فورسز کے خلاف لڑائی کی بجائے زیادہ طاقت و غلبہ حاصل کرنے میں مصروف ہے۔
آئی ایس آئی ایل کے جنگجوؤں کی اکثر باغی گروپ کے ساتھ بھی جھڑپیں ہوئی ہیں۔ یہ تنظیم ’آئی ایس آئی ایل‘ ایک اور نام یعنی اسلام اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا ’آئی ایس آئی ایس‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔