شام کی حکومت اور حزب مخالف کے درمیان مذاکرات جمعہ کو جنیوا میں شروع ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ واضح نہیں کہ آیا یہ بات چیت ابتدائی منصوبے کے مطابق براہ راست ہو گی یا نہیں۔
شامی حزب مخالف کے ایک نمائندے نے جمعرات کو رات گئے اس امکان کا اظہار کیا کہ دونوں دھڑے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے لخدار براہمیی سے علیحدہ علیحدہ ملیں گے۔
حزب مخالف نے کہا ہے کہ وہ شامی حکومت سے اس وقت تک براہ راست بات چیت نہیں کرے گی جب تک کہ وہ شامی صدر کی اقتدار سے علیحدگی پر مذاکرات نہیں کرتی۔
شام نے اس سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ باغی دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں۔
مخا لف دھڑوں نے کسی بھی قسم کے سمجھوتے کا کو ئی اشارہ نہیں دیا اور دھمکی دی ہے کہ وہ بدھ کو شروع ہونے والے ان امن مذاکرات سے الگ ہو جائیں گے۔
شام کے قومی اتحاد یعنی نیشنل کولیشن کے صدر احمد جربا نے جعرات کو یہ واضح کیا کہ اس میں کو ئی شبہ نہیں ہونا چاہیئے کہ شام کے صدر کا اقتدار ختم ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود وہ چاہیں گے کہ بات چیت آگے بڑھے۔
جربا نے کہا کہ ’’بات چیت مشکل ہوں گی یہ آسان نہیں، لیکن ایک ہزار میل کا سفر ایک قدم اٹھانے سے ہی شروع ہوتا ہے۔‘‘
شامی حزب مخالف اور حکومتی نمائندوں نے جعرات کو لخدار براہیمی سے الگ الگ ملاقات کی تھی۔
ان مذکرات کو جنیوا-ٹو مذکرات کا نام دیا گیا جس کا مقصد عبوری حکومت کا قیام ہے۔
مگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ منزل اتنی آسان نہیں۔ مگر کم از کم اس سے شہریوں کے لیے امدادی کارروایئوں شروع ہو سکتی ہیں۔
دوسری طرف القاعدہ کے راہنما ایمن الظواہری نے اپنے ایک بیان میں شامی باغیوں پر زور دیا ہے کہ کہ وہ آپس کی لڑائی ختم کر کے شامی صدر اسد کے خلاف لڑائی پر توجہ دیں۔
القاعدہ سے منسلک شدت پسند اس امن بات چیت کے عمل کو تسلیم نہیں کرتے اور ان کی دیگر باغی گروپوں کے ساتھ حالیہ ہفتوں میں ہونے والی جھڑپوں میں سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔
شامی حکومت اور حزب مخالف کے دمیان یہ بات چیت امریکہ اور روس کی مشترکہ کاوش ہے یہ بات چیت 2012 کے اس معاہدے کے نتیجے میں ہو رہی ہے جس میں شام کے بحران کا پرامن حل ڈھونڈنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
شام میں مارچ2011 میں صدر بشار الاسد کے خلاف پرامن مظاہرے شروع ہوئے لیکن اس کے بعد ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس کے نتیجے میں اب تک ایک لاکھ سے زائد لوگ ہلا ک اور تقریباً نوے لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔
شامی حزب مخالف کے ایک نمائندے نے جمعرات کو رات گئے اس امکان کا اظہار کیا کہ دونوں دھڑے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے لخدار براہمیی سے علیحدہ علیحدہ ملیں گے۔
حزب مخالف نے کہا ہے کہ وہ شامی حکومت سے اس وقت تک براہ راست بات چیت نہیں کرے گی جب تک کہ وہ شامی صدر کی اقتدار سے علیحدگی پر مذاکرات نہیں کرتی۔
شام نے اس سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ باغی دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں۔
مخا لف دھڑوں نے کسی بھی قسم کے سمجھوتے کا کو ئی اشارہ نہیں دیا اور دھمکی دی ہے کہ وہ بدھ کو شروع ہونے والے ان امن مذاکرات سے الگ ہو جائیں گے۔
شام کے قومی اتحاد یعنی نیشنل کولیشن کے صدر احمد جربا نے جعرات کو یہ واضح کیا کہ اس میں کو ئی شبہ نہیں ہونا چاہیئے کہ شام کے صدر کا اقتدار ختم ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود وہ چاہیں گے کہ بات چیت آگے بڑھے۔
جربا نے کہا کہ ’’بات چیت مشکل ہوں گی یہ آسان نہیں، لیکن ایک ہزار میل کا سفر ایک قدم اٹھانے سے ہی شروع ہوتا ہے۔‘‘
شامی حزب مخالف اور حکومتی نمائندوں نے جعرات کو لخدار براہیمی سے الگ الگ ملاقات کی تھی۔
ان مذکرات کو جنیوا-ٹو مذکرات کا نام دیا گیا جس کا مقصد عبوری حکومت کا قیام ہے۔
مگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ منزل اتنی آسان نہیں۔ مگر کم از کم اس سے شہریوں کے لیے امدادی کارروایئوں شروع ہو سکتی ہیں۔
دوسری طرف القاعدہ کے راہنما ایمن الظواہری نے اپنے ایک بیان میں شامی باغیوں پر زور دیا ہے کہ کہ وہ آپس کی لڑائی ختم کر کے شامی صدر اسد کے خلاف لڑائی پر توجہ دیں۔
القاعدہ سے منسلک شدت پسند اس امن بات چیت کے عمل کو تسلیم نہیں کرتے اور ان کی دیگر باغی گروپوں کے ساتھ حالیہ ہفتوں میں ہونے والی جھڑپوں میں سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔
شامی حکومت اور حزب مخالف کے دمیان یہ بات چیت امریکہ اور روس کی مشترکہ کاوش ہے یہ بات چیت 2012 کے اس معاہدے کے نتیجے میں ہو رہی ہے جس میں شام کے بحران کا پرامن حل ڈھونڈنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
شام میں مارچ2011 میں صدر بشار الاسد کے خلاف پرامن مظاہرے شروع ہوئے لیکن اس کے بعد ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس کے نتیجے میں اب تک ایک لاکھ سے زائد لوگ ہلا ک اور تقریباً نوے لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔