زندگی صرف وہی نہیں ہے جو ہمیں دکھائی دیتی ہے اور ہمارے اردگرد موجود ہے۔ زندگی کی ایک اور شکل جراثیم اور وائرس ہیں، جو اگرچہ ہمارے اردگرد موجود ہیں اور ہمارے معمولات پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں، لیکن وہ ہمیں دکھائی نہیں دیتے اور انہیں دیکھنے کے لیے سائنسی آلات کی مدد حاصل کرنا پڑتی ہے۔ تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زندگی کی ایک اور شکل وہ ہے جو زمین پر تو موجود نہیں ہے لیکن زمین سے باہر خلا میں اس کے وجود کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلا میں موجود زندگی سائنس فکشن کہانیوں اور فلموں میں دکھائی جانے والی زندگی جیسی نہیں ہے۔ یعنی بالوں سے پاک بڑی کھوپڑی، بڑے کان اور بڑی بڑی روشن آنکھوںوالی انسان سے متشابہ مخلوق، بلکہ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ خلائی مخلوق بڑی حد تک جراثیمی نوعیت کی ہوسکتی ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جس مقام پر زمین کا کرہ ہوائی ختم ہوتا ہے، وہاں مختلف نوعیت کی جراثیمی مخلوق کی موجودگی خارج ازامکان نہیں ہے کیونکہ خلا میں آوارہ گھومنے والے اکثر سیارچے ایسے ہیں جن پر جراثیمی زندگی موجود ہوسکتی ہے۔ جب کوئی آوارہ سیارچہ زمین کے کرہ ہوائی میں داخل ہوتا ہے تو ہوا کی رگڑ سے اس میں آگ بھڑک اٹھتی ہے اور زمین پر پہنچنے سے پہلے وہ راکھ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ایسے واقعات روزانہ ہزاروں کی تعداد میں رونما ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کا کرہ ہوائی نہ صرف یہاں موجود زندگی کو جینے کے لیے آکسیجن اور دوسری ضروری چیزیں فراہم کرتا ہے، بلکہ وہ خلائی جراثیموں کو زمین پر پہنچنے سےروکنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگرخلائی جراثیموں کی زمین پر بلاروک ٹوک آمد جاری ہوتی تو زمین پر حیات موجودہ صورت میں برقرار نہ ہوتی اور مختلف قسم کی مہلک بیماریاں یہاں سے زندگی کی بساط لپیٹ چکی ہوتیں۔
تاہم سائنس دانوں کے ایک گروہ یہ بھی کہنا ہے کہ زمین پر موجود زندگی نے زمین پر جنم نہیں لیا بلکہ وہ کروڑوں سال پہلے زمین پر گرنے والے کسی ایسے سیارچے کے ذریعے، جس کا کچھ حصہ کرہ ہوائی کی رگڑ سے لگنے والی آگ سے محفوظ رہ گیاتھا، یہاں پہنچی تھی۔ جس نے پھر یہاں ارتقا کی ان گنت منازل طے کیں اور زندگی کی بے حدوحساب اشکال وجود میں آئیں۔
زمین کے بیرونی خلائی کرے میں کس نوعیت کی زندگی موجود ہے؟ یہ سوال ایک عرصے سے سائنس دانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی شہاب ثاقب یا سیارچہ کرہ ارض میں داخل ہوتا ہے کہ تو یہ امکان موجود ہوتا ہے کہ ہوائی کرے میں داخل ہونے سے قبل اس پر موجود زندہ اجسام کا کچھ حصہ باہر رہ جائے اور فنا ہونے سے بچ جائے۔
یورپی خلائی ادار ے سے منسلک سائنس دان کرہ ہوائی سے باہر امکانی طورپر موجود بیکٹریا اور خودبینی مخلوق پر تحقیق کے ایک بڑے منصوبے کاآغاز کررہے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کا خیال میں کرہ ارض کے باہر ایسی خودبینی مخلوق موجود ہے جو سورج اور دوسرے اجرام فلکی سے خارج ہونے والی شدید تابکاری ، انتہائی کم درجہ حرارت اور ہوا کی تقریباً عدم موجودگی میں جینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اگر سائنس دان کرہ ارض کے باہر سےاس طرح کی کوئی خودبینی مخلوق پکڑ کرلانے میں کامیاب ہوگئے تو وہ غالباً کرہ ارض پر آنے والی پہلی حقیقی خلائی مخلوق ہوگی ، جس سے اس نظریے کو تقویت ملے گی کہ زمین پر زندگی بھی کہکشاں کے کسی سیارے سے آئی تھی۔
برطانیہ کی کرین فیلڈ یونیورسٹی پروفیسر کلارا جونز ولیجو خلائی مخلوق تلاش کرنے والے مشن کی سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم اس نظریے پر تحقیق کررہے ہیں کہ آیا زمین پر زندگی خلاسے آئی تھی۔ اگر ہمیں ایسی کوئی مخلوق مل جاتی ہے جو خلا کے انتہائی دشوار حالات میں زندہ رہ سکتی ہے تو پھر ہمیں اس نظریے کی صداقت پر یقین کرنا پڑے گا۔
وہ کہتی ہیں کہ خلا میں انتہائی شدید صورت حال کاسامنا کرنا پڑاہے۔ وہاں بالعموم درجہ حرارت صفر سے 90 درجے سینٹی گریڈ سے بھی کم ہوتاہے اور ہوا نہ ہونے کے برابر۔ دوسری جانب وہاں ہر وقت مسلسل خطرناک تابکاری کا سامنا رہتاہے۔
کلارا جونز کہتی ہیں کہ اگر خلا میں کوئی مخلوق اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ مریخ اور دیگرسیاروں میں زندہ نہ رہ سکے۔
یورپی خلائی ادارہ اپنے اس مشن کے لیے 60 لاکھ پاؤنڈ سے تیار کیا جانے والا ایک غبار ہ 21 میل کی بلندی پر پہنچائے گا، جو مختلف آلات کے ذریعے وہاں موجود چیزوں کو خلا سے اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور زمین پر واپسی سے قبل انہیں سیل کردے گا تاکہ وہ فضا میں بکھرنے نہ پائیں۔
کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زمین پر زندگی کا آغاز لگ بھگ تین کروڑ 80 لاکھ سال پہلے ہوا تھا۔ مگر اس سوال کا ابھی تک کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکا کہ زمین پر زندگی کیسے شروع ہوئی تھی۔ یورپی خلائی ادارے کانیا مشن اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی جانب ایک اور قدم ہے۔