اِس مقدمے کی سماعت ’فاسٹ ٹریک کورٹ‘ میں شروع ہوگئی ہے اور عدالت نے ملزمان کو پیر کے روز حاضر ہونے کا حکم دیا ہے
دارالحکومت دہلی میں 16دسمبر کی شب ایک چلتی بس کے اندر ایک 23سالہ طالبہ کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی، تشدد اور قتل کے الزام میں گرفتار پانچ ملزموں کے خودکشی کرلینے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے، جِس وجہ سے تہاڑ جیل میں جہاں وہ قید ہیں، اُن کی نگرانی بڑھا دی گئی ہے۔
جیل کے ایک اہل کار نے ایک خبررساں ادارے سے بات چیت میں کہا کہ، ’پانچوں ملزمان نہ تو آپس میں گفتگو کرتے ہیں، نہی دوسرے قیدیوں کے ساتھ۔ بس وہ خاموش بیٹھے رہتے ہیں‘۔
اُن کے الفاظ میں، ’اندیشہ ہے کہ وہ خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ اِس لیے، اُن کی ہر طرح سے نگرانی کی جارہی ہے، جسے جیل اصطلاح میں ’سوسائڈ واچ‘ پر رکھا گیا ہے‘۔
چھٹا ملزم ایک 17سالہ نوجوان ہے، جسے نابالغ ہونے کی وجہ سےعلیحدہ رکھا گیا ہے۔ اُس کی اصل عمر کا پتا لگانے کے لیے پولیس کو اُس کی ہڈی کی جانچ کی رپورٹ کا انتظار ہے۔
دریں اثنا، طالبہ کے دوست نے، جو کہ واردات کے وقت اُس کے ساتھ تھا، اُس نے الزام لگایا ہے کہ پولیس کی وین اُس جگہ بہت دیر سے پہنچی جہاں اُنھیں بس سےعریاں حالت میں پھینک دیا گیا تھا اور پھرپولیس والے نصف گھنٹے تک اِس پر جھگڑتے رہے کہ یہ واردات کس تھانے کے تحت آتی ہے۔
اُدھر، پولیس کے ایک سینئر عہدےدار نےنیوز کانفرنس کرکے اِس الزام کی تردید کی ہے۔
اِس کیس کی سماعت ’فاسٹ ٹریک کورٹ‘ میں شروع ہوگئی ہے اور عدالت نے ملزمان کو پیر کے روز حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔
ملزموں کوسخت سے سخت سزا دینے اور ملک میں خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے مطالبے کے ساتھ جنتر منتر پر پُرامن احتجاج کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
بیشتر سیاسی جماعتوں نے عصمت دری کے مجرموں کو موت کی سزا دینے کا قانون بنانے کی حمایت کی ہے۔
جیل کے ایک اہل کار نے ایک خبررساں ادارے سے بات چیت میں کہا کہ، ’پانچوں ملزمان نہ تو آپس میں گفتگو کرتے ہیں، نہی دوسرے قیدیوں کے ساتھ۔ بس وہ خاموش بیٹھے رہتے ہیں‘۔
اُن کے الفاظ میں، ’اندیشہ ہے کہ وہ خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ اِس لیے، اُن کی ہر طرح سے نگرانی کی جارہی ہے، جسے جیل اصطلاح میں ’سوسائڈ واچ‘ پر رکھا گیا ہے‘۔
چھٹا ملزم ایک 17سالہ نوجوان ہے، جسے نابالغ ہونے کی وجہ سےعلیحدہ رکھا گیا ہے۔ اُس کی اصل عمر کا پتا لگانے کے لیے پولیس کو اُس کی ہڈی کی جانچ کی رپورٹ کا انتظار ہے۔
دریں اثنا، طالبہ کے دوست نے، جو کہ واردات کے وقت اُس کے ساتھ تھا، اُس نے الزام لگایا ہے کہ پولیس کی وین اُس جگہ بہت دیر سے پہنچی جہاں اُنھیں بس سےعریاں حالت میں پھینک دیا گیا تھا اور پھرپولیس والے نصف گھنٹے تک اِس پر جھگڑتے رہے کہ یہ واردات کس تھانے کے تحت آتی ہے۔
اُدھر، پولیس کے ایک سینئر عہدےدار نےنیوز کانفرنس کرکے اِس الزام کی تردید کی ہے۔
اِس کیس کی سماعت ’فاسٹ ٹریک کورٹ‘ میں شروع ہوگئی ہے اور عدالت نے ملزمان کو پیر کے روز حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔
ملزموں کوسخت سے سخت سزا دینے اور ملک میں خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے مطالبے کے ساتھ جنتر منتر پر پُرامن احتجاج کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
بیشتر سیاسی جماعتوں نے عصمت دری کے مجرموں کو موت کی سزا دینے کا قانون بنانے کی حمایت کی ہے۔