شام کی مشرقی سرحد کے اندر القامشلی شہر میں ایک بڑا کار بم دھماکہ ہوا ہے۔ دھماکہ منیر حبیب اسٹریٹ پر اوماری ریسٹورنٹ کے قریب ہوا۔ جس سے عمارتوں میں آگ لگ گئی۔
اس علاقے میں چھ ریسٹورنٹ ہیں۔ وائس آف امریکہ کی کرد سروس کے نمائندے زانا عمر اس وقت دھماکے کے مقام کے قریب موجود تھے۔
وہ کھانا لینے ریسٹورنٹ گئے تھے اور ابھی کار سے نکل کر کچھ دور ہی پہنچے تھے کہ قریب کھڑی کار میں دھماکہ ہوا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی جان بچ گئی لیکن ان کی کار اور اس میں موجود سامان تباہ ہو گیا۔
زانا عمر کی بھیجی ہوئی سیل فون ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دھماکے کے بعد ارد گرد کی کاروں اور عمارت کو آگ لگ گئی ہے جبکہ عمارتوں سے دھواں اٹھ رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
القامشلی شمال مشرقی شام میں ترکی کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس کے ساتھ ترکی کے شہر نصیبن کی سرحدیں ملتی ہیں۔ یہاں سے عراق کی سرحد بھی قریب ہے۔
شام کے سرحدی قصبوں راس العین اور تل ابیض میں بھی جمعے کو ترکی کی فوجی کارروائی جاری رہی۔
وائس آف امریکہ کی ترک اور کرد سروس کے نمائندوں کی بھیجی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شام کے سرحدی علاقے تل تل ابیض میں کئی مقامات سے دھویں کے مرغولے بلند ہو رہے ہیں۔
علاقے میں ترک فوج کے ہیلی کاپٹر اڑتے دیکھے گئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری طرف نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے ترکی میں صدر طیب اردوان اور وزیر خارجہ مولود کاووسوگلو سے ملاقات کی ہے، اور امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کے بعد شمالی شام میں پیدا ہونے والی صورتحال پر بات چیت کی ہے۔ ترک وزیر خارجہ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے ترکی کی فوجی کارروائی پر تشویش کا اظہار کیا۔ مگر یہ تسلیم کیا کہ انہیں اپنی سلامتی سے متعلق ترکی کو لاحق خدشات کا اندازہ ہے۔
امریکہ کی جانب سے علاقے سے اپنی فوج نکالنے کے اعلان کے فوری بعد ترکی کی فضائی اور زمینی افواج نے علاقے میں کرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے ۔ ترکی کرد قیادت میں لڑنے والی سیرین ڈیموکریٹک فورس کے خلاف اس کارروائی کو انسداد دہشت گردی آپریشن قرار دیتا ہے۔ امریکہ نے شام کی جنگ کے دوران اس جنگجو ملیشیا کو امداد فراہم کی تھی۔
ترک وزیر دفاع نے جمعے کو فوجی کارروائی کے تیسرے روز لڑائی میں پہلی ہلاکت اور تین فوجیوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ کارروائی میں سویلین ہلاکتیں بھی رپورٹ کی گئی ہیں۔ لیکن، ان کی تعداد کے بارے میں ابھی مصدقہ اطلاعات موجود نہیں۔
ایک عالمی امدادی ادارے کے مطابق، چونسٹھ ہزار افراد علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ہزاروں بے گھر ہو گئے ہیں۔ ترک سرحد کے دونوں جانب مارٹر فائر کئے جانے سے شہری ہلاکتوں اور لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
ترکی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک کی سرحدوں اور کرد قیادت میں لڑنے والی سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے درمیان ایک ’محفوظ زون‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔