بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سطح سمندر سے تقریبا" تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہندوؤں کی مشہور عبادت گاہ امرناتھ گپھا کے لئے سالانہ یاترا شروع ہوگئی ہے۔ تقریبا" چھ ہفتے تک جاری رہنے والی اس یاترا کے لئے غیر معمولی حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔
عہدیداروں کے مطابق حفاظتی انتظامات میں تقریبا" ساٹھ ہزار اضافی سیکیورٹی اہلکاروں کی اُن علاقوں میں تعیناتی بھی شامل ہے جہاں سے ہندو یاتری گزریں گے یا قیام کریں گے۔ سیکیورٹی فورسز کی یہ کمک بھارتی فوج، نیم فوجی دستوں اور پولیس کی اُس بھاری تعداد کے علاوہ ہے جو شورش زدہ وادی کشمیر میں مستقل طور پر تعینات ہے۔
یاترا ڈیوٹی پر تعینات سبھی سیکیورٹی اہلکار وں کو جدید اسلحے سے لیس کردیا گیا ہے۔ ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار وجے کمار نے بتایا کہ یاترا کی نگرانی کے لئے جدید الیکٹرانگ آلات ، ایسے ڈرونز جن میں کیمرے لگے ہوئے ہیں اور سی سی ٹی وی کیمروں کا استعمال بھی کیا جارہا ہے۔یاترا کے بیس کیمپس اور ان کے آس پاس موٹر سائیکل سوار پولیس کمانڈوز بھی نظر آرہے ہیں۔
عسکریت پسندوں کی طرف سے حملوں کا خدشہ
سیکیورٹی افسران کا کہنا ہے کہ یہ غیر معمولی سیکیورٹی انتظامات علحیدگی پسند عسکریت پسندوں کی طرف سے یاترا کو ہدف بنانے کے خدشے کے پیشِ نظر کئے گئے ہیں۔ پولیس عہدیدار وجے کمار نے حال ہی میں بتایا تھا کہ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اسٹکی یا چھوٹے مقناطیسی بم لگے ہیں اس لئے اس بات کا امکان موجود ہے کہ یاترا کے دوراں وہ ان کا اور ڈرونز کا استعمال کرکے گڑبڑ پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
حزبِ اختلاف نے حکومت پر امر ناتھ یاترا کے لئے حفاظتی انتظامات کی آڑ میں جموں و کشمیر بالخصوص مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں خو ف و دہشت کا ماحول پیدا کرنے کا الزام لگایا ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سری نگر میں نامہ نگاروں کو بتایا "امرناتھ کی یاترا پر آنے والوں کی آؤبھگت کرنا اور انہیں یاترا کے دوراں بہترین سہولیات فراہم کرنا کشمیر کی ایک پرانی روایت ہے اور اس میں مقامی مسلمان ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں لیکن جس انداز سے موجودہ حکومت اس سارے معاملے سے نمٹ رہی ہے اس سےلگتا ہے کشمیر میں کوئی جنگ چھڑنے والی ہے"۔
کیا حکومت واقعی اور ایکٹ کررہی ہے؟ اس استفسار پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے جموں و کشمیر یونٹ کے صدر رویندر رینہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا "اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کشمیری مسلمانوں نے ہمیشہ امرناتھ یاترا کے لئے سہولت پیدا کی ہے اور آج بھی کررہے ہیں۔ لیکن یہ فرقہ وارانہ بھائی چارہ مفادِ پرست عناصر کو کبھی ایک آنکھ نہ بھایا ہے۔
انہوں نے مزید کہا "سیکیورٹی فورسز کی طرف سے جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے انہی کے پیشِ نظر یاترا کے لئے معقول حفاظتی انتظامات کئے گئے ہیں لیکن محبوبہ مفتی جیسے سیاست دان لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا کرکے اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ "
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ 2017 میں یاتریوں پرنامعلوم مسلح افراد کی طرف سے کئے گئے ایک حملے میں آٹھ یاتری ہلاک اور نو زخمی ہوئے تھے-اس لئے وہ یاترا کے لئے حفاظتی انتظامات کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ عہدیداروں نے اس حملے کے لئے کالعدم عسکری تنظیم لشکرِ طیبہ کو مورِ د الزام ٹھرایا تھا۔ لیکن لشکرِ طیبہ نے اس کی سختی کے ساتھ تردید کی تھی اور واقعے کے لئے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔ماضی میں متنازع کشمیر میں سرگرم عسکری تنظیموں نے بارہا یہ کہا ہے کہ امر ناتھ یاترا کے حوالے سے ان کو لیکر بھارتی حکام کی طرف سے جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے وہ بے بنیاد ہیں۔
یاترا کی حفاظت کے سلسلےمیں بعض حلقوں کی طرف سے خدشات کے اظہار کے پس منظر میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سربراہِ نتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے گزشتہ دنوں سری نگر میں نامہ نگاروں کو بتایا تھا "یاترا کے لئے جس قسم کے بھی سیکیورٹی انتظامات درکار ہیں وہ سب پہلے ہی کئے گئے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز سخت محنت کررہے ہیں اور فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔"
یاتریوں کا پہلا قافلہ وادی کشمیر میں داخل
منوج سنہا نے بدھ کو علی الصباح سرمائی صدر مقام جموں میں امر ناتھ یاترا پر آنے والے چار ہزار آٹھ سو نوے ہندو زائرین کے پہلے قافلے کو جھنڈی دکھاکر وادی کشمیر کی طرف روانہ کردیا۔ اس کے فورا" بعد انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا "یاتریوں کے پہلے قافلےکو روانہ کردیا اور وہ جموں بیس کیمپ سے شری امرناتھ جی گھپا کی اور رواں دواں ہیں۔ میں نے امن و ترقی اور یاتریوں کے محفوظ روحانی سفر کے لئے دعاکی۔
176 چھوٹی بڑی گاڑیوں پر مشتمل یہ قافلہ بدھ کی سہہ پیر کو وادی کشمیر میں داخل ہوا اور پھر بیس کیمپس پہلگام اور بال تل کے لئے روانہ ہوگیاجہاں سے یاتری امر ناتھ گپھا تک دشوار گزار پہاڑی راستہ پیدل چل کر یا گھوڑوں یا پالکیوں پر سوار ہوکر طے کرلیں گے۔حکومت نے اس سال پہلی بار دارالحکومت سری نگر سےپنج ترنی نامی مقام تک جو گپھا سے صرف چھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے براہ راست ہیلی کاپٹر سروس بھی شروع کردی ہے۔
دو سال کے وقفے کے بعد یاترا
امر ناتھ یاترا دو سال کے وقفے کے بعد ہورہی ہے۔ 2020 اور2021 میں یاترا کو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر عین آخری وقت پر منسوخ کیا گا تھا جبکہ 2019 میں حکام نے اسے بیچ ہی میں روک کر عقیدت مندوں کو وادی کشمیر فوری طور پر چھوڑنے کے لئے کہا تھا۔
اُس وقت جموں و کشمیر کے محکمہ داخلہ کے حکام اور ایک اعلیٰ فوجی کمانڈر نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے کشمیر میں بڑے پیمانے پر پُر تشدد کاررائیں کرانے کا منصوبہ بنالیا ہے اور ان کی زد میں امر ناتھ کی یاترا پر آنے والے ہندو زائرین اور وادی میں موجود سیاحوں کو بھی لایا جاسکتا ہے اس لئے یہ ان کے مفاد میں ہے کہ وہ فوری طور پر گھروں کو لوٹ جائیں۔ لیکن بعد میں یہ عیاں ہوگیا کہ محکمہ داخلہ کی طرف سے جاری کی جانے والی ایڈوائزری دراصل ان اقدامات کا حصہ تھی جو حکومتِ ہند نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے زیر کنٹرول علاقے بنانے سے پہلے اٹھائے تھے۔
یاتریوں کی ریکارڈ تعداد میں آمد متوقع
حکام کا کہنا ہے کہ اس سال چھہ ہفتے تک جاری رہنے والی یاترا کے دوران بھارت کی مختلف ریاستوں سے تقریبا" آٹھ لاکھ ہندو عقیدت مندوں کی امر ناتھ آمد متوقع ہے جو ایک ریکارڈہوگا ۔ ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں یاتریوں کا اجتماع اور پھر ان کی طرف سے کھلے میں قضائے حاجت کرنے اور غیر تحلیل مصنوعات کے استعمال کی وجہ سے کشمیرکے اس پہاڑی علاقے کے ماحولیات پر منفی اثرپڑ سکتا ہے -
تاہم عہدیدار وں نے اسے ایک بے بنیاد خدشہ قرار دیدیا ہے اور کہا ہے کہ اس نازک ہمالیاتی خطے کے حیاتیات کو ایک جامع ماحولیاتی ایکشن پلان کے تحت تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یاتریوں کو بہترین طبی ، مواصلاتی اور دوسری ضروری سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ صحت و صفائی کا بھی خاص خیال رکھا جارہا ہے۔
امر ناتھ یاترا مذہبی رواداری کی ایک علامت ہے - اسے کامیاب بنانے میں مقامی مسلمان اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ امر ناتھ گپھا تک پیدل یا گھوڑوں یا پالکیوں پر سوار ہوکر جانے اور واپس آنے والے ہندو عقیدت مندوں کو ضروری سہولیات فراہم کرنے والوں میں کشمیری مسلمان پیش پیش نظر آتے ہیں - یہ روایت سینکڑوں برس پرانی ہے۔