پاکستان کی قومی اسمبلی نے پیٹرولیم لیوی کی قیمت میں 50 روپے فی لیٹر اضافے کی منظوری دی ہے جو کہ ایک سال کے دوران مرحلہ وار نافذ کی جائے گی۔
لیوی کے نفاذ سے معالی مشکلات میں گھری ہوئی حکومت کو آسان اضافی محصولات حاصل ہو سکیں گے تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ ٹیکس کا یہ نفاذ ناقابلِ برداشت حد تک نافذ کردیا گیا ہے جس کی ماضی کے کسی بجٹ میں مثال نہیں ملتی۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق حکومت ہر ماہ پانچ روپے فی پیٹرولیم لیوی عائد کرے گی اور مرحلہ وار بنیاد پر اسے 50 روپے فی لیٹر تک بڑھایا جائے گا۔
پٹرولیم لیوی میں اضافی کی یہ منظوری بدھ کو کو قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں مالیاتی بل 23-2022 کی منظوری کی تحریک کے دوران دی گئی۔
وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ اس وقت پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی صفر ہے اور وفاقی حکومت فوری طور پر اس کا نفاذ کرنے نہیں جارہی بلکہ یہ مرحلہ وار عائد کی جائے گی۔
واضح رہے کہ تحریکِ انصاف کی سابق حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے پٹرولیم مصنوعات پر مرحلہ وار 30 روپے فی لیٹر لیوی عائد کرنے پر اتفاق کیا تھا تاہم اس پر عمل درآمد نہ کیے جانے پر عالمی تنظیم کی جانب سے اعتراضات سامنے آئے تھے۔
آئی ایم ایف نے موجودہ حکومت سے پیٹرولیم لیوی کو بحال کرنے کا مطالبہ کررکھا ہے۔قومی اسمبلی سے اس کی منظوری کے بعد حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی لگانے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ پیٹرول پر لیوی لینے سے حکومت کو آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی کے سلسلے میں جاری مذاکرات میں مدد ملے گی۔
موجودہ حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے پر پہلے ہی عوامی تنقید کا سامنا ہے۔ اور لیوی عائد کیے جانے کے بعد عوام پر مزید بوجھ بڑھے گا۔
سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کہتے ہیں کہ پیٹرولیم لیوی کا نفاذ ٹیکس کے حصول کا ایک سنجیدہ اقدام ہے، اگر بجٹ میں منظور شدہ 50 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی کا جولائی سے نفاذ کیا جائے تو سال کے اختتام تک صرف پیٹرولیم لیوی کی مد میں حکومت کے پاس 1380 ارب روپے اکھٹے ہو جائیں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف پیٹرولیم مصنوعات میں صرف 20 روپے کے اضافے سے حکومت کو 552 ارب روپے کا اضافی ٹیکس حاصل ہوگا۔
ان کے بقول حکومت پیٹرولیم لیوی کے ساتھ ساتھ 11 فی صد جی ایس ٹی کے نفاذ کا بھی ارادہ رکھتی ہے جس کے نتیجے پیٹرولیم مصنوعات سے حاصل شدہ محاصل کے حجم میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
وقار مسعود نے بتایا کہ پاکستان میں ماہانہ دو اعشاریہ تین ارب لیٹر پیٹرول اور ڈیزل خرچ ہوتا ہے جو سالانہ طور پر 27 اعشاریہ 6 ارب لیٹر بنتا ہے۔ اس پر ٹیکس کا نفاذ ناقابل برداشت حد تک نافذ کردیا گیاہے جس کی ماضی کے کسی بجٹ میں مثال نہیں ملتی۔