پاکستان میں قومی اسمبلی نے الیکشن ایکٹ میں ترامیم منظور کرلی ہیں جس کے بعد نااہلی کی مدت پانچ سال مقرر کردی گئی ہے۔
اسمبلی میں منظور کی جانے والی ترامیم کے مطابق انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کرے گا اور اس میں ردوبدل کرسکے گا جب کہ الیکشن کی تاریخ کے لیے صدر مملکت سے مشاورت کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔
یہ بل ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب صدر ملکت عارف علوی حج کی ادائیگی کے لیے روانہ ہوچکے ہیں اور اس وقت چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی قائم مقام صدر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
صدر کی غیر موجودگی میں اس بل پر قائم مقام صدر کے دستخط ہونے سے یہ قانون فوری طور پر لاگو ہو جائے گا۔
بجٹ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ایوان میں پیش کیا۔
اتوار کے روز قومی اسمبلی کا بجٹ سیشن اسپیکر راجہ پرویز اشریف کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے متعدد بلز کی طرح ضمنی ایجنڈے کے طور پر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا جو ایوان نے منظور کرلیا۔ قبل ازیں یہ بل سینیٹ سے منظور ہوچکا ہے۔
الیکشن ایکٹ بل کے تحت 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال مقرر کردی گئی۔
الیکشن ایکٹ کے کن سیکشنز میں تبدیلی کی گئی؟
الیکشن اصلاحات بل 2017ء میں ترمیم کی گئی ہے۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل 2023 منظور کر لیا گیا۔بل میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت الیکشن ایکٹ میں ترمیم تجویز کی گئی۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا 5 سال ہو گی۔
بل کے مطابق سیکشن 57 (1) میں تبدیلی کی گئی ہے جس کے مطابق کمیشن عام انتخابات کی تاریخ یا تاریخوں کا اعلان سرکاری گزٹ میں نوٹی فکیشن کے ذریعے کرے گا اور حلقوں سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے کا مطالبہ کرے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسرے سیکشن 58 میں تبدیلی کے مطابق سیکشن 57 میں موجود کسی بھی چیز کے علاوہ کمیشن اس دفعہ کی ذیلی دفعہ (1) کے تحت نوٹی فکیشن کے اجرا کے بعد کسی بھی وقت الیکشن کے مختلف مراحل کے لیے اس نوٹی فکیشن میں اعلان کردہ انتخابی پروگرام میں ایسی تبدیلیاں کر سکتا ہے یا جاری کر سکتا ہے یا اس ایکٹ کے مقاصد کے لیے ایک نیا انتخابی پروگرام جس میں رائے شماری کی تازہ تاریخ کے ساتھ تحریری طور پر ریکارڈ کیا جانا ضروری ہے۔
الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 میں تبدیلی کے بعد 5 سال سے زیادہ نااہلی کی سزا نہیں ہو گی اور متعلقہ شخص قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل ہو گا۔
اس ایکٹ کی کسی دوسری شق میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود اس وقت نافذ العمل کوئی دوسرا قانون اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سمیت کسی بھی عدالت کے فیصلے، حکم یا حکم نامے، آئین کے آرٹیکل 62 کی شق (1) کے پیراگراف (ایف) کے تحت منتخب کیے جانے والے شخص کی نااہلی یا پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے برقرار رہنے کی مدت پانچ سال سے زیادہ نہیں ہو گی اور اس طرح اعلان قانون کے مناسب عمل کے تابع ہوگا۔
پیش کی گئی ترمیم میں مزید کہا گیا کہ نااہلی اور اہلیت کا طریقہ کار، طریقہ اور مدت وہی ہونا چاہیے جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 63 اور 64 کی متعلقہ دفعات میں خاص طور پر دیا گیا ہے۔
اس قانون کا فائدہ کس کو ہوگا؟
اس بل کی سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد کہا جارہا ہے کہ اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن اِن چیف جہانگیر ترین کو ہوگا جن کی تاحیات نااہلی ختم ہونے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔
اس سے قبل پانامہ لیکس کیس میں نواز شریف اور برطانیہ میں آف شور کمپنیاں ظاہر نہ کرنے کے الزام میں نواز شریف اور جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت صادق اور امین نہ ہونے کی بنا پر تاحیات نااہل کردیا گیا تھا۔
نواز شریف کو متحدہ عرب امارات میں موجود ان کے بیٹے کی کمپنی کے بطور ڈائریکٹر لکھی جانے والی تنخواہ کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے پر نااہل قرار دیا گیا تھا۔
اس فیصلے کے بعد احتساب عدالت کو نواز شریف، مریم نواز، حسن نواز، حسین نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف مقدمہ چلانے کا کہا گیا تھا جس میں احتساب عدالت سے ملنے والی سزا کے مطابق نواز شریف کو دس سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو ملنے والی سزا اسلام آبادہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دی تھی جب کہ جہانگیرترین کو دسمبر 2017 میں ان کی برطانیہ میں موجود آف شور کمپنی ظاہر نہ کرنے پر نااہل قرار دیا گیا تھا۔
مسلم لیگ(ن) کے حنیف عباسی کی طرف سے دائر درخواست میں جہانگیرترین اور عمران خان کے خلاف پٹیشن فائل کی گئی تھی لیکن اس میں عمران کو صادق اور امین جب کہ جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ معلومات بھی سامنے آئی تھیں کہ جہانگیرترین کو بیلنسنگ ایکٹ کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا۔
‘نیا بل قانونی تقاضوں کے لیے نہیں سیاسی تقاضوں کے لیے ہے’
سیاسی تجزیہ کاراور کالم نگار سلمان عابد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سیاست کا المیہ ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کی حمایت میں سیاسی انجنئیرنگ کا کھیل کھیلا ہے۔ اس میں اسٹیبلشمنٹ اولین کردار ادا کرتی ہے۔ کبھی کسی کو ملک سے نکالتے ہیں، کبھی کسی کو نااہل کرتے ہیں اور کبھی نااہلی ختم کرنے کے لیے قوانین بناتے ہیں۔
ان کے بقول نواز شریف کا معاملہ یہ تھا کہ انہوں نے عدالتوں کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا تھا وہ عدالتوں کو مطلوب تھے اوراشتہاری تھے۔ اب یہ قانون سازی ہورہی ہے تو یہ بھی سیاسی انجینئرنگ کا حصہ ہے۔
سلمان عابد کا کہنا تھا کہ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے وہ سیاسی تنہائی میں نہیں ہورہا بلکہ یہ ایک بڑے سیاسی گیم پلان کا حصہ ہے جس میں عدلیہ، میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ بھی شامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک کھیل ہے جو قانونی تقاضوں کے مطابق نہیں بلکہ سیاسی تقاضوں کے مطابق ہورہا ہے۔
ان کے مطابق ماضی میں انہی کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ انہیں سیاست سے الگ کرنا ہے، یہ درست ہے یا غلط یہ الگ معاملہ ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کب تک پاکستان میں سیاست کے فیصلے ایسے کیے جائیں گے؟
سلمان عابد کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی واپسی اس قدر آسان بھی نہیں ہے کیوں کہ ان کے خلاف کیسز بدستور موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کہا جارہا تھا کہ لیول پلئینگ فیلڈ مہیا کی جائے لیکن اس وقت جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہورہا ہے اس کے مطابق انہیں لیول پلئینگ فیلڈ مہیا نہیں کیا جارہا اور ان کے خلاف سیاسی اور قانونی کارروائیاں کر کے انہیں نااہل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔