امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے درمیان پہلی ورچوئل ملاقات میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ دونوں ہمسایہ ملک کرہ ارض کو نقصان دہ گیسوں سے بچانے کے لیے اپنی کوششیں دوگنا کر دیں گے تاکہ 2050 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو صفر پر لانے کا ہدف حاصل کیا جا سکے۔
کرونا وائرس کی وجہ سے دونوں رہنماؤں نے ورچوئل ملاقات کی، جس میں صدر بائیڈن وائٹ ہاؤس میں اور جسٹن ٹروڈو اوٹاوا میں موجود تھے۔
کنیڈین وزیراعظم ٹروڈو کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران مختلف عالمی فورمز پر، خاص طور پر آب و ہوا کی تبدیلیوں کے حوالے سے، امریکہ کی قیادت کی غیر موجودگی کو خاص طور پر شدت سے محسوس کیا گیا۔
وزیر اعظم ٹروڈو نے اس بات کو خوش آئند قرار دیا کہ بات چیت کے بعد مشترکہ بیان میں امریکی صدر نے موسمیاتی تبدیلیوں کا حوالہ دیا اور اسے نظر انداز نہیں کیا۔
صدر بائیڈن نے ملاقات میں وزیر اعظم ٹروڈو کو باور کروایا کہ کینیڈا امریکہ کا قریب ترین دوست ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بحیثیت صدر میری پہلی ٹیلی فون کال کینیڈا کے لیے تھی اور پہلی ورچوئل ملاقات بھی کینیڈا کی قیادت کے ساتھ ہو رہی ہے۔
ٹروڈو نے ورچوئل ملاقات کے بعد کہا کہ انہوں نے اور بائیڈن نے کرونا وائرس کو شکست دینے کے لیے تعاون بڑھانے پر بات چیت کی اور دونوں ممالک بین الاقوامی اداروں کے ذریعے سائنس اور تحقیق اور متعلقہ اہم رسدوں کی فراہمی جاری رکھیں گے۔
اس سے قبل ٹروڈو اور سابق صدر ٹرمپ کے درمیان تعلقات میں سرد مہری جاری رہی تھی جس کی ایک وجہ سابق صدر کی جانب سے کنیڈا پر سٹیل اور ایلومینم کی تجارت پر عائد کیے جانے والے محصولات تھے۔ اس موضوع پر بات چیت کے دوران ٹروڈو اور سابق صدر ٹرمپ کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔
کینیڈین وزیر اعظم نے سابق سفارتکار مائیکل کوورِگ اور تاجر مائیکل سپاوور کی رہائی کے لیے چین پر دباؤ ڈالنے پر صدر بائیڈن کا شکریہ ادا کیا۔ یہ دونوں کینیڈین شہری 2018 سے دھوکہ دہی کے الزامات پر چین میں زیر حراست ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ نے آب و ہوا سے متعلق امریکہ کی سابق پالیسی ترک کرتے ہوئے پیرس معاہدے میں دوبارہ شرکت کر لی ہے۔ منگل کے روز آب وہوا سے متعلق امریکی سفیر جان کیری نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ آب وہوا کے بحران سے سلامتی سے متعلق ایک فوری خطرے کے طور پر نمٹے۔ ان کا کہنا تھا کہ آب و ہوا میں تبدیلی کا خطرہ اتنا بڑا اور پیچیدہ ہے کہ اسے سلامتی کونسل کو درپیش دوسرے چیلنجز سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آنکھیں بند کر کے اس حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے۔