امریکی محکمہ دفاع کے کارکن کے خلاف تحقیقات

مائیکل فرلانگ نے مشتبہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے بارے میں معلومات جمع کیں جو ملٹری یونٹوں اور انٹیلی جنس کے عہدے داروں کو بھیج دی گئیں تا کہ وہ انھیں ٹھکانے لگانے کی کارروائی کر سکیں۔

امریکہ کے محکمہء دفاع نے ان الزامات کی تحقیقات کا حکم دیا ہے کہ اس کے ایک کارکن نے پرائیویٹ کنٹریکٹرز کا جاسوسی کا نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا جس کا کام افغانستان اور پاکستان میں مشتبہ عسکریت پسندوں کا سراغ لگانا تھا ۔ اخبار نیو یارک ٹائمز کے مضمون میں کہا گیا تھا کہ محکمہء دفاع کے ملازم مائیکل فرلانگ نے مشتبہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے بارے میں معلومات جمع کیں جو ملٹری یونٹوں اور انٹیلی جنس کے عہدے داروں کو بھیج دی گئیں تا کہ وہ انھیں ٹھکانے لگانے کی کارروائی کر سکیں۔ لیکن انٹیلی جنس کی کارروائیوں کو پرائیویٹ کنٹریکٹرز کے حوالے کرنا متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔

Spies for Hire نامی کتاب کے مصنف ، صحافی ٹم شوروک کہتے ہیں کہ امریکی ملٹری اورسی آئی اے نے اپنی خفیہ کارروائیوں کے لیے باہر سے مدد لینا شروع کر دی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ’’انتہائی خفیہ کارروائیوں کے لیے پرائیویٹ کنٹریکٹرز کا استعمال بہت عام ہو گیا ہے ۔ نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ ملٹری کے لیے یہ بات غیر قانونی ہے کہ پرائیویٹ کنٹریکٹرز کو خفیہ جاسوسوں کی طرح استعمال کیا جائے ۔ لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے کیوں کہ ڈفینس انٹیلی جینس ایجنسی میں جو ملٹری انٹیلی جینس کے یونٹوں کی طرح کام کرتی ہے، کنٹریکٹرز بھرے ہوئے ہیں‘‘۔

تمام انٹیلی جنس ایجنسیاں عملے کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کنٹریکٹرز کو استعمال کر رہی ہیں۔ لیکن خفیہ انٹیلی جنس آپریشنز کے لیے کنٹریکٹرز کو استعمال کرنا متنازعہ ہے ۔ امریکی قانون کے تحت کرایے کے فوجیوں کو ملازم رکھنا منع ہے لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ کن حالات میں پرائیویٹ کنٹریکٹرز کو نیم فوجی خفیہ آپریشنز کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔عام حالات میں مشتبہ عسکریت پسندوں کا پتہ چلانا اسپیشل آپریشنز کے سپاہیوں کا کام ہے جو سی آئی اے کے نیم فوجی کارندوں کے ساتھ مل کر یہ کام کرتے ہیں۔لیکن سابق آرمی انٹیلی جنس افسر ٹونی شیفر کہتے ہیں کہ 2001 ء میں اس وقت کے وزیر دفاع ڈانلڈ رمسفیلڈ نے طے کیا کہ وہ اسپیشل آپریشنز فورسز کو صرف اپنے محکمے کے لیے استعمال کریں گے اور انہیں سی آئی اے کو مستعار نہیں دیں گے۔ شیفر جو 2003ء اور 2004 ءمیں افغانستان میں ڈ یفنس انٹیلی جنس کے چیف آف آپریشنز رہ چکے ہیں کہتے ہیں کہ ان حالات میں سی آئ اے اپنے آپریشنز کے لیئے کنٹریکٹرز پر انحصار کرنے پر مجبور ہو گئی ۔

شروع میں کنٹریکٹرز کو افغانستان اور عراق میں فوجی اڈوں اور فوجی قافلوں کو سیکورٹی فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ لیکن شیفرکہتے ہیں کہ اب بلیک واٹر جیسے کنٹریکٹرز کو ایسے کام کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہاہے جس کا پہلے تصور نہیں کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق ’’میں اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ Blackwater کنٹریکٹرز افغانستان میں کرایے کے فوجیوں کی طرح استعمال کیئے جا رہے تھے ۔ وہ سی آئی اے کے مشن میں مدد دے رہے تھے ۔ خیال یہ تھا کہ اس طرح سی آئی اے تیزی سے ایسے شعبے میں کام کر سکتی تھی جس کی اس میں بہت زیادہ صلاحیت نہیں تھی ، یعنی نیم فوجی کارروائیاں‘‘۔

شیفر کہتے ہیں کہ انھوں نے ذاتی طور پر دو کنٹریکٹرز کی ہلاکت کے معاملے کو نمٹایا تھا۔ یہ دونوں بلیک واٹرکے کارندے تھے اور سی آئی اے کے مشن پر کام کر رہے تھے۔ یہ اپنی ہلاکت کے وقت نیم فوجی دستوں کے ساتھ تھے اور ان کا مشن بعض افراد کو تلاش کرنا اور انہیں ختم کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ لوگ وہاں محض سیکورٹی فراہم کرنے نہیں گئے تھے بلکہ ایک مشن میں سرگرمی سے حصہ لے رہے تھے۔

بیشتر کنٹریکٹرز حکومت کے سابق انٹیلی جنس افسر ہیں جنہیں وہی کام کرنے کے لیے سرکاری ملازمت کے مقابلے میں دگنی تنخواہ کی کشش پرائیویٹ کمپنی کی ملازمت میں لے گئی ہے ۔

ٹم شوروک کہتے ہیں کہ انٹیلی جنس کے کام میں کنٹریکٹرز کے بڑھتے ہوئے استعمال سے ان کے کام پر نظر رکھنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ سو فیصد سرکاری آپریشنز کے مقابلے میں کنٹریکٹرنگ کا کام مختلف ہوتا ہے ۔ سی آئی اے میں اور خفیہ کاموں میں جوابدہی ویسے بھی بہت زیادہ نہیں ہوتی۔ ان چیزوں کے بارے میں بہت کم لوگوں کو کچھ معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن جب کنٹریکٹرز یہ کام کرتے ہیں تو جوابدہی اور بھی کم ہوتی ہے اور ہر چیز پر راز داری کا پردہ پڑا ہوتا ہے ۔ آپ کنٹریکٹ کو بہت سے طریقوں سے چھپا سکتے ہیں اور معلومات کو دفن کر سکتے ہیں۔ یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کون کس کو رپورٹ کرتا ہے اور کس کے سامنے جوابدہ ہے۔

سرکاری کام کرتے وقت جو کنٹریکٹرز غلط حرکتوں کے مرتکب ہوتے ہیں ، ان کی ذمہ داری کیا ہے، اس بارے میں قانونی صورت حال اب تک واضح نہیں ہے ۔

امریکی کانگریس کے دو ارکان، ڈیموکریٹ جان شکوسکی اور آزاد رکن برنی سینڈرز نے گذشتہ ماہ ایک قانون تجویز کیا ہے جس کے تحت جنگ کے علاقوں میں پرائیویٹ سیکورٹی کنٹریکٹرز کا استعمال بتدریج کم کر دیا جائے گا۔