کم جانگ ان سے جلد ملاقات ہو سکتی ہے، صدر ٹرمپ

شمالی اور جنوبی کوریا کی سرحد پر صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے لیڈر کم جانگ ان سے ملاقات۔ 30 جون 2019

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے لیڈر کم جانگ ان، جون 2018 سے اب تک تین بار مل چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ بات چیت کا چوتھا دور جلد ممکن ہے۔ جب کہ کوریا کی توجہ طویل عرصے سے التوا میں پڑے ماہرین کی سطح کے مذاکرات پر مرکوز ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اس سال کے آخر تک کم جانگ ان سے چوتھی ملاقات کر سکتے ہیں۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کم ملنا چاہتے ہیں۔ انہیں ملنا پسند ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ملاقات جلد ہو گی۔

شمالی کوریا پہلے ہی اس مہینے کے آخر میں ورکنگ لیول کے مذاکرات کی پیش کش کر چکا ہے، جس سے یہ توقعات بڑھ گئی ہیں کہ گفت و شنید کا یہ دور زیادہ ٹھوس اور باضابطہ ہو گا۔

امریکہ کے ایک سابق عہدے دار ڈینس وائلڈر کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے قومی سیکورٹی کے مشیر جان بولٹن کی رخصتی ان مذاکرات میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

وائلڈر کا کہنا ہے کہ میراخیال ہے کہ شمالی کوریا والے اس پر خوش ہوں گے کہ جان بولٹن اب صدر کی ٹیم کا حصہ نہیں رہے۔ یہ واضح ہے کہ جان بولٹن کبھی بھی صدر کی کوریا سے متعلق پالیسیوں میں شریک نہیں تھے۔

بولٹن نے شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے محروم کرنے کے لیے لیبیا کا ماڈل پیش کیا تھا۔ جو پیانگ یانگ کے لیے ایک حوصلہ شکن ماڈل تھا کیونکہ لیبیا کے لیڈر معمر قذافی اپنا جوہری پروگرام ترک کرنے کے بعد امریکہ کی سرپرستی میں لڑنے والے باغیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔

صدر ٹرمپ نے اس پر کہا تھا کہ آپ یہ دیکھیں کہ قذافی کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ یہ اس سلسلے میں کوئی اچھا بیان نہیں تھا، اس سے ہمیں نقصان ہوا۔

اگر مذاكرات فی الواقع دوبارہ شروع ہو جاتے ہیں تو بات چیت کی ہیت اور ساخت بہت اہم ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر امریکہ اور شمالی کوریا جوہری معاہدے پر حقیقی پیش رفت کرتے ہیں تو اس کے لیے جوہری ماہرین کی ضرورت ہو گی اور وہ مذاكرات کم اور ٹرمپ کی ملاقات سے زیادہ ٹھوس ہو ں گے۔

جان بولٹن کی برطرفی کے باوجود یہ امکان نہیں ہے کہ شمالی کوریا مذاکرات کو آسان لے گا۔ اس ہفتے شمالی کوریا نے مئی میں شروع کیے جانے والے کم فاصلے کے میزائلوں کا 10 واں تجربہ کیا۔