ایک امریکی اخبار نے خبر دی ہے کہ سعودی عرب لاپتا ہونے والے صحافی جمال خشوگی کی ہلاکت تسلیم کرنے کے لیے خود کو تیار کر رہا ہے۔
سی این این کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ صحافی کی ہلاکت، ان سے غلط انداز میں تفتیش کرنے کے نتیجے میں ہوئی۔
رپورٹس میں یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ اس تفتیشی کارروائی کے دوران انہیں ممکنہ طور پر سعودی قونصل خانے سے اغوا کر کے واپس سعودی عرب لے جانے کی کوشش کی گئی تاکہ ان سے پوچھ گچھ کی جا سکے۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ امکان موجود ہے کہ سعودی عرب یہ کہے کہ جس کارروائی کے دوران خشوگی کی ہلاکت ہوئی وہ سرکاری کلیرنس کے بغیر کیا گیا تھا اور اس ہلاکت میں جن افراد کا ہاتھ ہے انہیں اس کا ذمہ دار ٹہرایا جائے گا۔
خشوگی کو آخری بار دو ہفتے قبل ترکی میں سعودی قونصل خانے میں جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ لاپتا ہے۔
پیر کے روز صدر ٹرمپ نے خشوگی کی گمشدگی پر اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ انہیں سنگ دل اور سفاک قاتلوں نے قتل کیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ سعودی بادشاہ کنگ سلمان نے ان سے 20 منٹ تک فون پر بات چیت کی اور یہ بتایا کہ انہیں بالکل علم نہیں ہے کہ خشوگی کے ساتھ کیا ہوا۔
خشوگی سعودی حکمران ولی عہد پرنس محمد بن سلمان پر اپنی تحریروں میں سخت تنقید کرتے تھے۔
ایک اور خبر کے مطابق ترک پولیس نے سعودی قونصل خانے کی تلاشى کا کام شروع کر دیا ہے۔
جمال خشوگی کے استنبول میں موجود سعودی قونصل خانے میں جانے کے دو ہفتے بعد بھی اُن کی گمشدگی ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ وہ اپنی ترک منگیتر سے شادی کرنے سے قبل سابقہ بیوی کو طلاق دینے سے متعلق دستاویزات مکمل کرنے کے لئے سعودی قونصل خانے گئے تھے۔ اُن کا سیل فون اُن کی ترک منگیتر کے پاس تھا اور وہ قونصل خانے کے باہر انتظار کر رہی تھیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے 11 گھنٹے تک خشوگی کا انتظار کیا اور جب وہ باہر نہیں آئے تو وہ واپس لوٹ گئیں۔