جنوبی سوڈان کے لیے خصوصی ایلچی، ڈونلڈ بوتھ نے پیر کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ تشدد کے خاتمے کے لیے صدر کیر اپنے سابق نائب صدر، رئیک ماچَار کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہیں
واشنگٹن —
امریکہ نے نسلی تشدد کے شکار جنوبی سوڈان میں امن کے لیے اپنی سفارتی کوششیں تیز کردی ہیں، جبکہ ساتھ ہی ساتھ، علاقے میں اپنی فوجوں کو از سر نو تعینات کیا ہے تاکہ ضرورت کی صورت میں اُن سے کام لیا جا سکے۔
جنوبی سوڈان کے لیے خصوصی ایلچی، ڈونلڈ بوتھ نے پیر کے روز جنوبی سوڈان کے صدر، سالوا کیر سے ملاقات کی، اور بقول اُن کے، بات چیت ’صاف اور دو ٹوک‘ تھی۔
بوتھ نے ٹیلی فون کے ذریعے نامہ نگاروں کو بتایا کہ تشدد کے خاتمے کے لیے صدر کیر اپنے سابق نائب صدر، رئیک ماچَار کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔
مسٹر کیر کا تعلق ’دِنکا‘ نسل سے ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ تشدد کے یہ واقعات تختہ الٹنے کی کوشش کا نتیجہ ہیں، اور یہ کہ تشدد کا الزام، ماچار پر لگایا جاتا ہے، جِن کا تعلق ’نویئر‘ نسل سے ہے۔
صدر کیر کی طرف سے یہ الزام لگائے جانے کے بعد سے کہ سولہ دسمبر کی تختہ الٹے جانے کی کوشش میں ماچار ملوث تھے، وہ روپوش ہیں۔
اُس کے بعد شروع ہونے والی جھڑپوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں، جب کہ کم از کم 60،000 افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
ادھر، امریکہ نے کہا ہے کہ اس کے تمام شہریوں کو باغیوں کے زیر قبضہ علاقے بور سے بحفاظت نکال لیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے حکام نے کہا کہ امریکی شہری اور اس کے دیگر "اتحادی ملکوں" کے لوگ بور سے اقوام متحدہ اور امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے دارالحکومت جوبا پہنچ گئے۔
گزشتہ ہفتہ کو لوگوں کے انخلا کے لیے بھیجے گئے ایک امریکی طیارے پر نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے چار امریکی اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔
اتوار کو صدر براک اوباما نے کانگریس کو بتایا کہ جنوبی سوڈان میں امریکی شہریوں کے تحفظ کے لیے وہ "شاید مزید کارروائی کریں۔"
مسٹر اوباما چھٹیوں پر ہوائی میں ہیں لیکن کانگریس کے رہنماؤں کو لکھے گئے ایک خط میں انھوں نے بتایا کہ جنوبی سوڈان سے اپنے شہریوں کے انخلا کے لیے 46 امریکی فوجی تعینات کیے گئے تھے۔ یہ تعداد ان 45 فوجیوں کے علاوہ ہے جو پہلے ہی جوبا میں امریکی سفارتخانے کی حفاظت پر معمور ہیں۔
دریں اثناء جنوبی سوڈان کی فوج کا کہنا ہے کہ حکومت کی حامی فورسز باغیوں کے زیر قبضہ دو علاقوں کا کنٹرول جلد ہی حاصل کر لیں گی۔
فوج کے ترجمان فلپ اگیور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سابق نائب صدر ریئک ماچار کی طرف سے بور اور بنتیو کے علاقوں قبضے کے لیے فوجیوں نے ان کی مدد کی لیکن حکومتی فوج ان علاقوں میں ’’باغیوں سے نمٹنے کی صلاحیت‘‘ رکھتی ہے۔
ترجمان نے امریکی شہریوں کو ان علاقوں سے لے جانے کے لیے آنے والے جہاز پر فائرنگ کا الزام بھی ماچار کے حامی جنگجوؤں پر عائد کیا۔ امریکی فوج نے حملہ آوروں کی شناخت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔
قبل ازیں فوج کے ایک ترجمان نے کہا ہے تیل کی دولت سے مالا مال ریاست کے مرکزی شہر بنتیو پر حکومت کا کنٹرول ختم ہو گیا ہے۔ تاہم جوبا میں حکام کے مطابق وہاں کسی بھی تیل کی تنصیب پر باغیوں کا قبضہ نہیں اور تمام تنصیبات معمول کے مطابق کام کر رہی ہیں۔
جنوبی سوڈان کی تنصیبات سے روزانہ دو لاکھ 45 ہزار بیرل تیل نکالا جاتا ہے جو ملک کی اہم درآمدات کے علاوہ خوراک اور حکومت کی محصولات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
جنوبی سوڈان نے 2011ء میں سوڈان سے آزادی حاصل کی تھی۔ رواں ماہ کے اوائل میں یہاں لڑائی کا آغاز دارالحکومت جوبا میں دو فوجی دھڑوں میں جھڑپوں سے ہوا۔ صدر سلوا کیر نے سابق نائب صدر ریئک ماچار پر ناکام بغاوت کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس لڑائی کی شروعات اُنھوں نے کیں۔
صدر سلوا نے مسٹر ماچار کو جولائی میں اُن کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا، دونوں طویل عرصے سے سیاسی حریف ہیں۔
رئیک ماچار ان الزام کی تردید کرتے ہیں لیکن اُن کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف فوجیوں کی کمانڈر کر رہے ہیں۔
اب تک یہاں ہونے والے جھڑپوں میں پانچ سو افراد ہلاک اور سات سو کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں یہاں خانہ جنگی کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق سینکڑوں لوگ اب تک کی لڑائی میں ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ جنوبی سوڈان کی دس میں سے پانچ ریاستوں سے لگ بھگ 62,000افراد اپنے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
لڑائی کی وجہ سے گھر چھوڑنے والوں میں سے لگ بھگ 42,000 ہزار اقوام متحدہ کی تنصیبات میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے فلپائن کے دورے کے دوران ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ عالمی تنظیم نے دنیا میں دیگر امن مشنز کے وسائل جنوبی سوڈان بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
’’ہم کئی دیگر اہم ممالک سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ضروری (مدد) فراہم کر سکتے ہیں۔‘‘
جنوبی سوڈان کے لیے خصوصی ایلچی، ڈونلڈ بوتھ نے پیر کے روز جنوبی سوڈان کے صدر، سالوا کیر سے ملاقات کی، اور بقول اُن کے، بات چیت ’صاف اور دو ٹوک‘ تھی۔
بوتھ نے ٹیلی فون کے ذریعے نامہ نگاروں کو بتایا کہ تشدد کے خاتمے کے لیے صدر کیر اپنے سابق نائب صدر، رئیک ماچَار کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔
مسٹر کیر کا تعلق ’دِنکا‘ نسل سے ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ تشدد کے یہ واقعات تختہ الٹنے کی کوشش کا نتیجہ ہیں، اور یہ کہ تشدد کا الزام، ماچار پر لگایا جاتا ہے، جِن کا تعلق ’نویئر‘ نسل سے ہے۔
صدر کیر کی طرف سے یہ الزام لگائے جانے کے بعد سے کہ سولہ دسمبر کی تختہ الٹے جانے کی کوشش میں ماچار ملوث تھے، وہ روپوش ہیں۔
اُس کے بعد شروع ہونے والی جھڑپوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں، جب کہ کم از کم 60،000 افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
ادھر، امریکہ نے کہا ہے کہ اس کے تمام شہریوں کو باغیوں کے زیر قبضہ علاقے بور سے بحفاظت نکال لیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے حکام نے کہا کہ امریکی شہری اور اس کے دیگر "اتحادی ملکوں" کے لوگ بور سے اقوام متحدہ اور امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے دارالحکومت جوبا پہنچ گئے۔
گزشتہ ہفتہ کو لوگوں کے انخلا کے لیے بھیجے گئے ایک امریکی طیارے پر نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے چار امریکی اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔
اتوار کو صدر براک اوباما نے کانگریس کو بتایا کہ جنوبی سوڈان میں امریکی شہریوں کے تحفظ کے لیے وہ "شاید مزید کارروائی کریں۔"
مسٹر اوباما چھٹیوں پر ہوائی میں ہیں لیکن کانگریس کے رہنماؤں کو لکھے گئے ایک خط میں انھوں نے بتایا کہ جنوبی سوڈان سے اپنے شہریوں کے انخلا کے لیے 46 امریکی فوجی تعینات کیے گئے تھے۔ یہ تعداد ان 45 فوجیوں کے علاوہ ہے جو پہلے ہی جوبا میں امریکی سفارتخانے کی حفاظت پر معمور ہیں۔
دریں اثناء جنوبی سوڈان کی فوج کا کہنا ہے کہ حکومت کی حامی فورسز باغیوں کے زیر قبضہ دو علاقوں کا کنٹرول جلد ہی حاصل کر لیں گی۔
فوج کے ترجمان فلپ اگیور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سابق نائب صدر ریئک ماچار کی طرف سے بور اور بنتیو کے علاقوں قبضے کے لیے فوجیوں نے ان کی مدد کی لیکن حکومتی فوج ان علاقوں میں ’’باغیوں سے نمٹنے کی صلاحیت‘‘ رکھتی ہے۔
ترجمان نے امریکی شہریوں کو ان علاقوں سے لے جانے کے لیے آنے والے جہاز پر فائرنگ کا الزام بھی ماچار کے حامی جنگجوؤں پر عائد کیا۔ امریکی فوج نے حملہ آوروں کی شناخت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔
قبل ازیں فوج کے ایک ترجمان نے کہا ہے تیل کی دولت سے مالا مال ریاست کے مرکزی شہر بنتیو پر حکومت کا کنٹرول ختم ہو گیا ہے۔ تاہم جوبا میں حکام کے مطابق وہاں کسی بھی تیل کی تنصیب پر باغیوں کا قبضہ نہیں اور تمام تنصیبات معمول کے مطابق کام کر رہی ہیں۔
جنوبی سوڈان کی تنصیبات سے روزانہ دو لاکھ 45 ہزار بیرل تیل نکالا جاتا ہے جو ملک کی اہم درآمدات کے علاوہ خوراک اور حکومت کی محصولات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
جنوبی سوڈان نے 2011ء میں سوڈان سے آزادی حاصل کی تھی۔ رواں ماہ کے اوائل میں یہاں لڑائی کا آغاز دارالحکومت جوبا میں دو فوجی دھڑوں میں جھڑپوں سے ہوا۔ صدر سلوا کیر نے سابق نائب صدر ریئک ماچار پر ناکام بغاوت کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس لڑائی کی شروعات اُنھوں نے کیں۔
صدر سلوا نے مسٹر ماچار کو جولائی میں اُن کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا، دونوں طویل عرصے سے سیاسی حریف ہیں۔
رئیک ماچار ان الزام کی تردید کرتے ہیں لیکن اُن کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف فوجیوں کی کمانڈر کر رہے ہیں۔
اب تک یہاں ہونے والے جھڑپوں میں پانچ سو افراد ہلاک اور سات سو کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں یہاں خانہ جنگی کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق سینکڑوں لوگ اب تک کی لڑائی میں ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ جنوبی سوڈان کی دس میں سے پانچ ریاستوں سے لگ بھگ 62,000افراد اپنے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
لڑائی کی وجہ سے گھر چھوڑنے والوں میں سے لگ بھگ 42,000 ہزار اقوام متحدہ کی تنصیبات میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے فلپائن کے دورے کے دوران ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ عالمی تنظیم نے دنیا میں دیگر امن مشنز کے وسائل جنوبی سوڈان بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
’’ہم کئی دیگر اہم ممالک سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ضروری (مدد) فراہم کر سکتے ہیں۔‘‘