بھارتی شہر ایودھیا میں اتوار کو سخت حفاظتی انتظامات اور کشیدہ ماحول میں وشو ہندو پریشد کی جانب سے ایک اہم اجلاس ہوا جس میں بڑی تعداد میں سادھوؤں اور دیگر مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی ۔
اجلاس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ قانون سازی کرکے متنازع مقام پر رام مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار کرے۔ تنظیم کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اجلاس میں تین لاکھ افراد نے شرکت کی جبکہ اس اجلاس کی ایک عرصے سے تیاری کی جا رہی تھی۔
جلسے میں سپریم کورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا اور الزام عائد کیا گیا کہ اسے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کا ذرا بھی احساس نہیں۔
ہندو پریشد کے ایک سینئر رہنما سوامی بھدراچاریہ نے اپنی تقریر میں انکشاف کیا کہ حکومت 11 دسمبر کے بعد اس بارے میں ایک فیصلہ کن قدم اٹھانے جا رہی ہے۔
انھوں نے ایک سینئر مرکزی وزیر کے حوالے سے کہا کہ پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے موقع پر ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کی وجہ سے حکومت ابھی کوئی اعلان نہیں کر سکتی۔
جلسے میں یہ اعلان بھی کیا گیا کہ 10 دسمبر کو دہلی میں بھی ایسا ہی ایک جلسہ کیا جائے گا۔
پریشد کے انٹرنیشنل جنرل سکریٹری چمپت رائے نے کہا کہ ہمیں رام مندر کے لیے 2.77 ایکڑ سے کچھ زیادہ کا پورا قطعہ اراضی چاہیے۔ ہمیں اس کی تقسیم منظور نہیں۔
الہٰ آباد ہائی کورٹ نے 2010 میں اپنے فیصلے میں متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ رام للا براجمان، دوسرا ہندو فریق نرموہی اکھاڑہ اور تیسرا مسلم فریق سنی سینٹرل وقف بورڈ کو دے دیا تھا۔
اس فیصلے کو دونوں فریقوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس پر جنوری کے پہلے ہفتے سے سماعت شروع ہوگی۔
اس موقع پر ایودھیا میں زبردست خوف و ہراس کا عالم رہا۔
دریں اثنا سپریم کورٹ کے سینئر وکلا اور قانون دانوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رام مندر کی تعمیر کے لیے بیانات اور پروگراموں کا جو سلسلہ چل رہا ہے وہ توہین عدالت کے دائرے میں آتا ہے۔ عدالت نے وہاں صورت حال کو جوں کا تو برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا جس کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
ایڈووکیٹ زیڈ کے فیضان نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ وہ ان سرگرمیوں اور رام مندر کی تعمیر کے لیے پتھروں کی تراش خراش کے کام پر پابندی لگائے۔ لوگوں کے بیانات پر ایکشن لے اور اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو ایودھیا میں جمع نہ ہونے دے۔
ایڈووکیٹ اسد علوی نے کہا کہ سپریم کورٹ اس بارے میں از خود کارروائی بھی کر سکتی ہے لیکن ملک میں ایسے حالات بنا دئیے گئے ہیں کہ عدالت کے لیے بھی کچھ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
سپریم کورٹ میں ایڈووکیٹ آن ریکارڈ مشتاق احمد نے کہا کہ اگر عدالت میں ایک جامع پٹیشن داخل کی جائے تو وہ اس سلسلے میں کارروائی کر سکتی ہے۔ عدالت از خود بھی ایکشن لے سکتی ہے لیکن وہ اس کی پابند نہیں ہے۔
مسلم تنظیموں کے کل ہند وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے صدر رام ناتھ کووند کے نام ایک مکتوب ارسال کرکے ان سے اس معاملے میں مداخلت کی اپیل کی ہے۔
انھوں نے وائس آف امریکہ سے کہا کہ انھیں اندیشہ ہے کہ جو بھیڑ ایودھیا آئی ہے وہ جب واپس جائے گی تو کہیں شرانگیزی نہ کرے اس لیے ہم نے اس صورت حال پر صدر کی توجہ مبذول کرائی ہے اور ان سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔
مجموعی طور پر مسلم تنظیموں نے خاموش رہنے اور عدالتی فیصلے کا انتظا رکرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔
اسی درمیان وزیر اعظم نریند رمودی نے کانگریس پر رام مندر معاملے میں سیاست کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ کانگریس کی جانب سے سردست کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔