انسانی حقوق کی موقر بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ شام میں حزب مخالف کے بعض گروپ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا وہی طریقہ کار اپنائے ہوئے ہیں جو صدر بشاالاسد کی حکومت کے وفادار کرتے آ رہے ہیں۔
تنظیم نے عسکریت پسندوں کے زیر تسلط علاقوں میں تشدد، اغوا اور ماورائے عدالت قتل کی "لرزہ خیز" لہر کی بنیاد پر منگل کو یہ رپورٹ جاری کی۔
رپورٹ میں صوبہ ادلیب اور حلب کے علاقوں میں رہنے اور کام کرنے والے 70 کے لگ بھگ لوگوں سے معلومات حاصل کی گئیں اور ان کی بنیاد پر بتایا گیا کہ چار سالوں کے عرصے میں پانچ مسلح گروپوں کی طرف سے انسانی حقوق کی مبینہ طور خلاف ورزیاں کی گئی۔
ان میں امریکہ اور خطے کے دیگر ممالک کے حمایت یافتہ بعض گروپوں کے علاوہ شام میں القاعدہ سے وابستہ گروپ بھی شامل ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مشرق وسطیٰ کے لیے ڈائریکٹر فلپ لوتھر کا کہنا تھا کہ "مسلح حزب مخالف کے زیر تسلط علاقوں میں ہوسکتا ہے بعض شہریوں نے شام کی حکومت کے مظالم سے چھٹکارا حاصل کرنے پر ان گروپوں کا خیرمقدم کیا ہو اور انھیں امید ہو کہ یہ گروپ حقوق کی پاسداری کریں گے، تاہم انھوں نے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے کر مبینہ طور پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں۔"
رپورٹ میں سرگرم کارکنوں، نسلی اور مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں کے اغوا کے 24 واقعات کی تفصیلات بیان کی گئیں۔ ان میں وہ تین بچے اور دو خواتین بھی شامل ہیں جو گزشتہ ہفتے تک بھی لاپتا تھے۔
ایمنسٹی نے ماورائے عدالت قتل کے واقعات بھی رپورٹ کیے ہیں جن میں حکومت کے حامی جنگجوؤں کو سرعام گولی مار کر موت کے گھاٹ اتارنا بھی شامل ہے اور تنظیم کے بقول یہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ تنظیم نے ان گروپوں کے بین الاقوامی حامیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کو فراہم کیے گئے ہتھیار قبضے میں لے لیں۔
بعض لوگوں کو صرف اس بنا پر تحویل میں لے لیا گیا کہ وہ مسلح گروپوں پر تنقید کرتے تھے اور بعض واقعات میں موسیقی بجانے والوں کو بھی اغوا کر لیا گیا۔
ان گروپس میں شامل احرار الشام نے ایک خط میں کہا ہے کہ وہ ایمنسٹی سے مل کر معاملات کی وضاحت کرنا چاہتا ہے لیکن اس نے تنظیم کے الزامات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔