انسانی حقوق کے عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان سے جبری گم شدگی کے واقعات کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جبری طور پر کسی بھی شخص کو لاپتا کرنا نہ صرف انسانی حقوق کے خلاف ہے بلکہ لاپتا ہونے والے شخص کے خاندان کو ذہنی اور مالی پریشانیوں کے علاوہ دیگر مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کی طرف سے یہ مطالبہ جبری طور پر لاپتا ہونے والے افراد کے اہلِ خانہ پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں تیار ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
'زندہ بھوت' کے نام سے جاری ہونے والے رپورٹ کے مطابق کہ جبری گم شدگی نہ صرف بین الاقوامی قانون کے تحت ایک ایسا جرم ہے جس میں ریاستی حکام کسی بھی شخص کو حراست میں رکھنے کا انکار کرتے ہیں۔ بلکہ اس کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے بھی انکار کرتے ہیں۔
یہ رپورٹ مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتا والے 10 افراد کے اہلِ خانہ کے انٹرویوز پر مبنی ہے جن کی خیر خبر کے بارے میں ان کے اہلِ خانہ کو کوئی اطلاع نہیں ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں اگرچہ 1980 کی دہائی سے جبری طور لاپتا ہونے والے افراد سے متعلق ریکارڈ مرتب ہونا شروع ہوا تھا البتہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران متعدد انسانی حقوق کے کارکن، صحافی یا سیاست میں متحرک افراد بھی جبری طور پر لاپتا ہوتے رہے ہیں اور ان میں سے کئی ایک کے بارے میں ابھی تک کچھ معلومات نہیں ہیں کہ وہ کس حال میں ہیں یا ان کے ساتھ کیا ہوا۔ جب کہ ان کے اہلِ خانہ کا الزام ہے کہ ریاست کے بعض اداروں نے انہیں لاپتا کیا ہے البتہ یہ ادارے اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل جنوبی ایشیا کی قائم مقام محقق رحاب مخمور کا کہنا ہے کہ جبری گم شدگی ایک ایسا ظالمانہ عمل ہے جس کی وجہ پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سیکڑوں خاندانوں کو ناقابلِ تلافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے مطابق ایک طرف انہیں اپنے لاپتا ہونے والے عزیزوں کے کھونے کا غم ہوتا ہے اور دوسری جانب انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کہاں ہیں؟
انہوں نے کہا کہ لاپتا ہونے والے افراد کے اہلِ خانہ کو اس وجہ سے نہ صرف جسمانی اور نفسیاتی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ انہیں مالی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر سرکاری حکام کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا اور حکام سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی جارہی ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ زیریں قومی اسمبلی نے جبری گم شدگی کو جرم قرار دینے کا ایک مجوزہ قانون منظور کیا ہے اور پاکستان کی انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے آٹھ نومبر کو سوشل میڈیا پر بھی اس کی تصدیق کی تھی۔
تاہم اس قانون کی ایک شق کے بارے میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کے مطابق جبری گم شدگی کا جھوٹا الزام ثابت ہونے پر شکایت کرنے والے شخص کو پانچ سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسا قانون بننا چاہیے تاکہ جبری طور پر لاپتا ہونے والے افراد کے اہلِ خانہ کو تحفظ فراہم کیا جائے اور کسی بھی شخص کو جبری طور پر لاپتا کرنے والے معاملے میں ملوث فرد کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
حارث خلیق کا کہنا ہے کہ جب ایک شخص کو جبری طور پر لاپتا کیا جاتا ہے تو اس سے پورا خاندان اور کمیونٹی متاثر ہوتی ہے۔ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے کہ کسی شخص کو کسی معاملے کا ذمہ دار قرار دے کر اسے غائب کر دیا جائے۔
حارث خلیق نے کہا کہ اگر کوئی کسی جرم میں ملوث ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ اسے عدالت میں پیش کیا جائے اور اسے قانون کے مطابق سزاوار ٹھیرایا جائے۔ البتہ کسی بھی شخص کو غائب کر دینا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم تنظیم ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کے سربراہ نصر اللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ لاپتا افراد ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اگر جبری طور پر لاپتا افراد کے خلاف ریاست مخالف ہونے کا الزام ہے تو بھی ان کے خلاف ملک کے آئین اور قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ ملزم کو قانون کے مطابق دیے گئے حقوق کے ساتھ رویہ اختیار کیا جائے۔
نصر اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ حکومت اور اداروں کو ایسے اقدامات کرنے چاہیئں کہ جبری گم شدگیوں کے واقعات رک سکیں۔ کئی لاپتا افراد کے معاملات عدالتوں بھی زیرِ التوا ہیں۔
حکومت نے جبری طور پر لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے 2011 میں انکوئری کمیشن قائم کیا تھا اس کمیشن کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق 2011 سے لے کر ستمبر 2021 تک جبری گم شدگی کے 8122 کیسز موصول ہوئے۔
ان کیسز میں سے 5848 کیسز نمٹائے جا چکے ہیں۔ اس وقت بھی 2274 کے لگ بھگ کیسز کمیشن میں زیرِ التوا ہیں۔