انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم "ایمنسٹی انٹرنیشنل" نے پاکستانی عہدیداروں پر زور دیا ہے کہ وہ "غیرت کے نام پر" قتل اور خواتین کے خلاف دیگر تشدد کے واقعات میں ملوث عناصر کو معافی دینے کا سلسلہ بند کرے۔
ایک بیان میں تنظیم کا کہنا تھا کہ قندیل بلوچ کی اپنے بھائی کے ہاتھوں المناک ہلاکت نے اس اہمیت کو اجاگر کیا کہ خواتین اور مردوں کے خلاف خاندان کی غیرت کو جواز بنا کر ہونے والے جرائم کو روکا جائے۔
سماجی رابطوں پر اپنی "بے باک" اور متنازع بیانات سے شہرت پانے والی قندیل بلوچ کو گزشتہ ہفتے ملتان میں ان کے بھائی نے قتل کر دیا تھا۔ ملزم اس وقت پولیس کی حراست میں ہے اور وہ یہ اعتراف کر چکا ہے کہ اس نے "غیرت کے نام پر" اپنی بہن کو قتل کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے صوبہ پنجاب کی حکام کے اس فیصلے کو سراہا کہ قندیل قتل کیس میں ریاست کو بھی شامل کیا جس کے تحت اب لواحقین کو ملزم کو قانونی طور پر معاف کرنے کا حق حاصل نہیں ہو سکے گا۔
تنظیم کی عہدیدار چمپا پٹیل نے بیان میں کہا کہ "پاکستان کو غیرت کے نام پر قتل میں معافی کو ختم کرنے کے لیے بنیادی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے جس میں یہ قانونی سازی بھی شامل ہے کہ قتل کے ایسے واقعات میں خاندان کی طرف سے معافی کو ختم کیا جائے۔"
تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ وہ سزائے موت کے حق میں نہیں ہے۔
پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے اور اکثر ایسے واقعات منظر عام پر آتے رہے ہیں۔ بیشتر واقعات میں خاندان کے افراد ملزم کو معاف کر دیتے ہیں یا پھر خون بہا لے لیا جاتا ہے۔
چمپا پٹیل کا کہنا تھا کہ "غیرت کے نام پر قتل کے ذمہ داران کے ان کے جرم پر احتساب میں ناکامی سے پاکستان متاثرین سے متعلق اپنے فرائض سے پہلو تہی کر رہا ہے۔"
ان کے بقول اس سے ملک بھر میں تمام شعبہ ہائے زندگی کے ہزاروں لوگوں خصوصاً خواتین اور بچیاں ان جرائم کا شکار ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی تازہ سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال تقریباً 1100 خواتین "غیرت کے نام پر" قتل ہوئیں۔ یہ تعداد 2014ء میں 1000 جب کہ 2013ء میں 869 تھی۔
پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف "غیرت کے نام پر قتل" کے خلاف اپنی حکومت کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں لیکن اس کے خاتمے کے لیے تیار کیا مسودہ قانون تاحال قانون سازی کے مراحل میں ہے۔