|
افغانستان کی صالحہ کو امید ہو چلی ہے کہ وہ اپنی تعلیم دوبارہ جاری رکھ سکتی ہے اور یہ امید اسے آن لائن کلاسز نے دلائی ہے۔ وہ ڈاکٹر بن کر افغانستان میں مریضوں کی خدمت کرنا چاہتی تھی لیکن افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے بعد اسے اپنے خوب ٹوٹتے نظر آئے۔
2021 میں افغانستان سے امریکی قیادت والی فورسز واپس چلی گئیں اور طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی۔ تب صالحہ نویں جماعت میں پڑھتی تھی۔
اب سیکنڈری اسکول کی تعلیم پر طالبان کی پابندی کو چار سال ہو چکے ہیں۔ اور افغان لڑکیاں اور خواتین تعلیم حاصل کرنے کے متبادل ذریعے تلاش کرنے لگی ہیں۔
صالحہ جو سیکیورٹی کی وجوہات کی بنا پر اپنا پورا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں، اب 18 سال کی ہوچکی ہیں وہ کہتی ہیں، "میرا خواب تھا کہ اسکول کی تعلیم ختم کرکے میں یونیورسٹی جاؤں گی۔ لیکن اب سب پابندیوں کو دیکھتے ہوئے میں نے سوچا ہے کسی بھی طرح پڑھائی کروں خواہ آن لائن کلاسز لوں یا خفیہ اسکول سے پڑھوں۔"
SEE ALSO: افغانستان:یونیورسٹی داخلہ امتحانات میں 3 سال سے طالبات غائب،سرعام کوڑوں کی سزائیں جاریاقوامِ متحدہ کے مطابق طالبان کی اس پابندی سے افغانستان میں 14 لاکھ لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں۔
طالبان کی پابندی کے تحت نوجوان افغان خواتین کے لیے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے، سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے اور پبلک مقامات جیسا کہ پارکوں، جمز اور بیوٹی سیلونز میں جانے کی ممانعت ہے۔
افغانستان کی دوسری لڑکیوں اور نوجوان خواتین کی طرح صالحہ اور اس کی چار بہنوں کو بھی گھر میں بند ہونا پڑا لیکن وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے پکا ارادہ کیا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں گی۔
وہ کہتی ہیں، "میں نے پیسہ پیسہ جمع کیا اور ایک کمپیوٹر خریدا اور انٹر نیٹ کی ادائیگی کی تاکہ میں آن لائن پڑھ سکوں۔"
لیکن تمام افغان لڑکیاں یا نوجوان خواتین اتنی استطاعت نہیں رکھتیں کہ آن لائن کلاسز کا خرچ اٹھا سکیں۔
SEE ALSO: افغانستان: سرکاری شعبے میں خواتین کی تنخواہوں میں کٹوتی2022 میں گیلپ نے ایک سروے کے ذریعے بتایا تھا کہ افغانستان میں صرف 6% خواتین ایسی ہیں جو انٹرنیٹ تک رسائی رکھتی ہیں جبکہ مردوں میں 25% کو یہ رسائی حاصل ہے۔
لچک کی ضرورت ہے
پشتانہ درانی، ایک ڈیجیٹل اسکول نیٹ ورک لرن افغانستان، LEARN Afghanistan کی بانی ہیں۔ انہوں نے وائس آف امیریکہ کو بتایا کہ چونکہ افغانستان میں سب لوگوں کو سب چیزوں تک رسائی حاصل نہیں ہے اس لیے ان کی تنظیم تعلیم کی مختلف سہولتیں فراہم کرتی ہے۔
وہ کہتی ہیں، افغانستان میں سب کے لیے ایک ہی طریقہ کام نہیں کرتا۔ اصل طریقہ یہ ہے کہ ہر طرح کے لوگوں کے لیے گنجائش اور سہولت ہو۔
Your browser doesn’t support HTML5
آن لائن کلاسز کے ساتھ ساتھ درانی کی آرگنائزیشن چھ صوبوں میں خفیہ اسکول چلا رہی ہے جن میں 700 لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔
میترا الوکوزئی سحر ایجوکیشن کی ایگزیکٹیو ڈائرکٹر ہیں۔ یہ بھی ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جو افغانستان میں خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے کام کر رہی ہے. ان کا کہنا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ مرد گھر کی لڑکیوں اور عورتوں کی آن لائن یا خفیہ اسکولوں میں تعلیم کی حمایت کریں۔
وہ کہتی ہیں طالبان کے آنے سے افغانستان میں نظامِ تعلیم متاثر ہوا ہے۔
یو نیسکو کے مطابق پرائمری اسکولوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد 2019 میں 68لاکھ سے کم ہو کر 2022میں 57 لاکھ ہو گئی۔
دماغی صحت کے مسائل
جلاوطنی میں قائم انسانی حقوق کی افغان تنظیم رواداری کی ایک رپورٹ میں اس ماہ بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں لڑکیاں ذہنی امراض کا شکار ہو رہی ہیں۔ان میں خودکشی کی کوشش کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ جبکہ ان کی زبردستی شادی بھی کر دی جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق خواتین کی تعلیم پر پابندی کے نتیجے میں ان کے خلاف تشدد بھی بڑھ گیا ہے اور افغانستان میں لڑکیوں اور عورتوں کے لیے زندگی مشکل ہو گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سحر ایجو کیشن کی الوکوزئی کہتی ہیں افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔
صالحہ بین الاقوامی کمیونٹی سے درخواست کرتی ہیں کہ وہ انہیں تنہا نہ چھوڑے۔
وہ کہتی ہیں، "ہمارے بارے میں سوچئے، ہمارے بارے میں لکھئے اور اس نظام کے خلاف جدوجہد میں ہماری مدد کیجئے۔ ایک دروازہ بند ہو تو دوسرا کھولنے میں ہماری مدد کیجئے۔"
(یہ مضمون وائس آف امریکہ کی افغان سروس سے ہما وہاج نے مہیا کیا)