رسائی کے لنکس

افغانستان: سرکاری شعبے میں خواتین کی تنخواہوں میں کٹوتی


افغان خواتین مارچ 2023 کو، کابل میں قالین بنانےکے ایک روایتی کارخانے میں قالین بُن رہی ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد، خواتین کے لیے کام کے کے بہت محدود مواقع رہ گئے ہیں۔۔ (اے پی فوٹو)
افغان خواتین مارچ 2023 کو، کابل میں قالین بنانےکے ایک روایتی کارخانے میں قالین بُن رہی ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد، خواتین کے لیے کام کے کے بہت محدود مواقع رہ گئے ہیں۔۔ (اے پی فوٹو)
  • طالبان نے ان خواتین سرکاری ملازمین کی تنخواہیں کم کردیں جنہیں گھروں میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
  • "ان خواتین کی جو دفتر نہیں جاتیں تنخواہیں 5,000 افغانی ماہانہ ہیں۔" وزارت خزانہ
  • ایک خاتوں نے نے اے ایف پی کو بتایا، "ہم ذہنی او ر نفسیاتی طور پربہت بری حالت میں ہیں۔ اور اب جب ہماری تنخواہیں کم ہو گئی ہیں، صورتحال مزید ابتر ہوگئی ہے۔"

افغان وزارت خزانہ نے پیر کو کہا کہ حکام نے ان خواتین سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کر دی ہے، جنہیں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے گھروں میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

سال 2021 میں غیر ملکی حمایت یافتہ حکومت کے انخلا کے بعدافغانستان میں قائم ہونے والی طالبان حکومت نے سرکاری شعبے میں ملازمت کرنے والی بیشتر خواتین کو ان کے دفاتر میں جانے سے روک دیا جبکہ ا ن کی تنخواہوں کی ادائیگی جاری رکھی تھی۔

وزارت خزانہ کے ترجمان احمد ولی حقمل نے اے ایف پی کو بتایا، "وہ خواتین جو گھر پر ہوتی ہیں اور دفتر نہیں جاتیں۔ ان کی تنخواہ 5,000 افغانی ( 70 ڈالر) ماہانہ ہے۔"

جن خواتین کو مردوں سے الگ شعبوں میں کام کرنے کی اجازت ہے، مثلاً سرکاری اسپتالوں یا اسکولوں میں، انہیں ان کے عہدوں کے مطابق تنخواہ ملتی رہے گی۔

کابل کے ایک اسکول میں ایک خاتون ٹیچر طالبات کو پڑھاتے ہوئے ، فائل فوٹو
کابل کے ایک اسکول میں ایک خاتون ٹیچر طالبات کو پڑھاتے ہوئے ، فائل فوٹو

اس سے قبل پبلک سیکٹر میں خواتین کی تنخواہیں تقریباً 35,000 افغانی تک رہ چکی ہیں، جن میں میں یونیورسٹی کی پروفیسرز شامل ہیں جو کیمپس چھوڑنے پر مجبور ہوگئی تھیں۔

وزارتوں میں انتظامی عہدوں پر تنخواہیں تقریباً 20,000 افغانی ہو سکتی تھیں اگرچہ طالبان کےاقتدار پر قبضے کے بعد،بہت جگہوں پر انہیں کم کر کے 15ہزار تک کر دیا گیاہے۔

ایک 25 سالہ خاتون نےجو 2021 کے اوائل تک کابل سے باہر محکمہ اطلاعات و ثقافت کے لیے کام کر چکی ہیں اورجنہوں نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کا کہاہے، بتایا کہ ان کی تنخواہ10 ہزار افغانی سے کم ہو گئی ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، "خواتین کو گھر کی چار دیواری تک محدود کرنا،ہمارے لیے پہلے ہی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہم ذہنی او ر نفسیاتی طور پربہت بری حالت میں ہیں۔ اور اب جب ہماری تنخواہیں کم ہو گئی ہیں، صورتحال مزید ابتر ہوگئی ہے۔"

وہ اپنی تنخواہ میں، اپنی بیمار والدہ سمیت، اپنے خاندان کے سات افراد کی کفالت کرتی ہیں،لیکن انہوں نے بتایا کہ یہ تنخواہ بمشکل دو ہفتے ہی چل پائے گی۔

وزارت خزانہ کے ترجمان نے کہا کہ تنخواہ میں تبدیلی جولائی میں نافذ العمل ہوئی ہے اور اندازہ ہے کہ اس سے سرکاری شعبے میں کام کرنے والی ہزاروں خواتین متاثر ہوں گی۔

سال 2021 میں میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے، طالبان حکام نے اسلامی قانون کی سخت تشریح کی بنیاد پر خواتین کی آزادیوں کو کم کر دیا ہے، جسے اقوام متحدہ نے "جنسی امتیاز" قرار دیا ہے۔

خواتین کو عوامی زندگی سے باہر دھکیل دیا گیا ہے، جس میں تعلیم پر پابندی کے ساتھ ساتھ عوامی پارکوں، جم اور حمام میں جانےپر ممانعت شامل ہے ۔

افغانستان،جسےکئی عشروں کی جنگ کے باعث تبا ہ کن حالات کا سامنا رہا ہے،طویل عرصے سے بین الاقوامی امداد پرگزارا کرتا رہا ہے ،جس میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد نمایاں طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ کے خواتین کے امور سے متعلق ادارے کا کہنا ہے کہ ، 2023 میں،ایک اندازے کے مطابق 2 کروڑ 92 لاکھ افراد یعنی تقریباً 70 فیصد آبادی کو زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی امداد کی ضرورت تھی۔

اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG