|
ایران کے اسرائیل پر میزائل حملوں کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی مزید بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میں بعض تجزیہ کار یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اسرائیل بھی انتہائی شدت سے ایران کے حملوں کا جواب دے سکتا ہے۔
البتہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ ایک حملہ ہوگا یا ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ شروع کر دے گا جس سے پورا مشرقِ وسطیٰ اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹینک ’سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز‘ سے وابستہ شان شیخ کہتے ہیں کہ یہ معاملہ کسی بھی طرف جا سکتا ہے۔
ان کے بقول ہر تبادلے کے بعد اس کے مرکزی کرداروں ایران اور اسرائیل کے پاس موقع ہوتا ہے کہ وہ مزید کشیدگی کی طرف جائیں یا کشیدگی میں کمی لائیں۔ اس حوالے سے پہلے سے کوئی راہ متعین نہیں ہے کہ جس کا انتخاب کیا جائے۔
ترکیہ اور عراق میں امریکہ کے سابق سفیر اور شام میں نمائندہ خصوصی رہنے والے جیمز جیفری کہتے ہیں کہ ایران کی فوجی استعداد اسرائیل کے مقابلے میں محدود ہے۔
جمیز جعفری کہتے ہیں کہ فوجی قوت ایک فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔
ایران کی پاسدارانِ انقلاب نے منگل کو اسرائیل پر میزائل داغنے کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے یہ حملے اسرائیل کی جانب سے تین اہم شخصیات کے قتل کے جواب میں کیے ہیں جن میں لبنان کی عسکتی تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ، غزہ کی عسکری تنظیم حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسمٰعیل ہنیہ اور ایرانی کمانڈر شامل ہیں۔
ایران نے اسرائیل پر رواں برس دوسری بار براہِ راست میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔ اس سے قبل اپریل 2024 میں ایران نے اسرائیل پر 300 میزائل اور ڈرون فائر کیے تھے۔ اس وقت تہران نے اسرائیل پر حملہ شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر فضائی حملے کا جواب قرار دیا تھا۔
اسرائیل نے اپریل میں ایران کے حملے کا نپے تلے انداز میں ردِ عمل دیا تھا۔ لیکن خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حالیہ حملے پر اسرائیل زیادہ شدت سے تہران کو جواب دے گا۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے ایک ویڈیو پیغام میں بھی کہا ہے کہ ایران کے رہنماؤں نے ایک 'بڑی غلطی' کی ہے۔
انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ ایران کو اس حملے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
اس وقت حملے کیوں کیے گئے؟
منگل کو کیے گئے حملوں سے قبل ایرانی حکام، اس کی اتحادی یا حامی عسکری تنظیموں کے عہدیداران کو حالیہ دنوں میں اسرائیل نے نشانہ بنایا تھا جس پر ایران کی خاموشی ایک مضبوط مخالف سے مقابلہ کرنے کی تہران کی خواہش سے متعلق شکوک و شبہات کو جنم دے رہا تھا۔
تھنک ٹینک ’سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز‘ سے وابستہ شان شیخ نے اس بارے میں کہا کہ ایسا ہو سکتا ہے کیوں کہ ایران کے عہدیداران اپنی ایک اہم اتحادی تنظیم حزب اللہ کا اسرائیل کے ہاتھوں خاتمہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں شان شیخ نے کہا کہ ایران نے دکھانا تھا کہ وہ حزب اللہ کا تحفظ کرے گا اور اس نے اپنی حامی دیگر تنظیموں کو بھی باور کرانا تھا کہ وہ خطے میں اپنے مفادات کا دفاع کرے گا۔
ایران نے اسرائیل پر میزائل حملوں کا فیصلہ ایسے موقع پر کیا جب اسرائیلی فورسز نے ایک دن قبل ہی لبنان میں زمینی کارروائی کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔
اس سے پہلے اسرائیل لبنان کے دارالحکومت بیروت سمیت کئی علاقوں پر بمباری کر رہا تھا جس میں لگ بھگ ایک ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت بھی ان حملوں میں ماری جا چکی ہے۔
اسرائیل نے لبنان میں شروع کی گئی کارروائی کو ’محدود، مخصوص علاقوں تک اور ٹارگٹڈ‘ قرار دیا ہے۔ اسرائیل نے اس آپریشن کا مقصد حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کو اپنی سرحد سے دور کرنا اور سرحدی علاقوں میں اس کی عسکری تنصیبات کا خاتمہ قرار دیا ہے۔
ایران کے اپریل میں اسرائیل پر کیے گئے حملوں کے بعد امریکی انتظامیہ نے مبینہ طور پر اسرائیل کو تحمل سے جواب دینے پر آمادہ کیا تھا۔ اب بھی آیا اسی طرح کی سفارتی کوشش ہو گی یا یہ اس کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
اس وقت اس کارروائی پر بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ انہوں نے امریکی فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ ایران کے میزائل تباہ کرنے میں اسرائیل کی مدد کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کوئی غلط نہ کی جائے۔ امریکہ اسرائیل کی مکمل حمایت کرتا ہے۔
امریکہ کے سابق سفارت کار جیمز جیفری کا کہنا ہے کہ اپریل میں کیے گئے حملوں کے بعد اسرائیل، امریکہ اور ایران متفق نظر آ رہے تھے کہ یہ آخری بار ہے۔ اگر اس طرح ایک بار پھر ہوا تو اس پر سنگین جوابی کارروائی ہوگی۔
SEE ALSO: ایران کو اپنی بڑی غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، نیتن یاہواب سوال یہ ہے کہ فریقین کس حد تک ایک دوسرے کی برداشت کا امتحان لیں گے۔
شان شیخ نے متنبہ کیا کہ یہ تنازع جتنا طویل ہوتا جائے گا۔ ہر فریق کو اس کا اتنا ہی زیادہ سیاسی دباؤ برداشت کرنا ہوگا۔ ہر فریق کو مزید عسکری طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور یہ خدشات کا سبب ہے۔
امریکہ کی یونیورسٹی آف اوکلاہوما کے ’سینٹر فار مڈل ایسٹ اسٹڈیز‘ کے ڈائریکٹر جوشوا لنڈیز کا کہنا ہے کہ یہ حملہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کو ایک موقع فراہم کر رہا ہے کہ وہ ایران کو ایک بڑا دھچکا پہنچائیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اسرائیل کو ایسا کرنے سے روگے یا نہیں۔ یہ ابھی ہمیں معلوم نہیں ہے۔