|
ترکیہ ایک بھرپور تاریخ کا ملک ہے جس کا ورثہ نہ صرف صدیوں کے دامن میں بکھرا ہے بلکہ اس نے دنیا کی تاریخ پر بھی اپنے گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔ یہ بھی تاریخ کا ایک دلچسپ پہلو ہے کہ اس خطے کے خانہ بدوش چرواہوں کے ایک قبیلے نے عظیم خلافت عثمانیہ کی بنیاد رکھی جس نے تین براعظموں پر حکومت کی۔
ترکی کی تاریخ کا ایک نیا دروازہ چند برس پہلے اتفاقیہ طور پر کھلا۔ ہوا کچھ یوں ترکی کے جنوب مغربی صوبے مارڈین کے ایک قصبے میں ایک شخص اپنی مرغیوں کو ڈھونڈتے ہوئے گھر کی دیوار کے عقب میں چلا گیا جہاں اسے ایک دروازہ نظر آیا۔ اس نے دروازے کو دھکیلا تو وہ ایک سرنگ میں کھل گیا۔
یہ سرنگ دنیا کے سب سے پرانے اور سب سے بڑے زیر زمین شہر کو جانے والا راستہ تھا۔ آثار قدیمہ کے ماہرین نے 2020 میں وہاں کھدائی اور صفائی کا کام شروع کیا۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھتے گئے، ان پر حیرتوں کے دروازے کھلتے چلے گئے۔
اب تک وہاں درجنوں سرنگیں اور 50 سے زیادہ کمرے دریافت ہو چکے ہیں۔ بھول بھلیوں کے اس شہر میں، چھوٹی بڑی سرنگوں کا جال بچھا ہے جو کمروں کو آپس میں جوڑتی ہیں۔ یہ سرنگیں چٹانوں کو تراش کر بنائی گئیں ہیں۔ اب تک صاف کی جانے والی سب سے بڑی سرنگ کی لمبائی 120 میٹر ہے۔
آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ ایک زمانے میں اس شہر میں 70 ہزار کے لگ بھگ لوگ رہتے تھے۔ انہوں نے یہاں اپنے لیے اناج اور خوراک کے گودام بنا رکھے تھے۔ پانی کے لیے کنوئیں تھے۔ کھانا پکانے کے لیے باورچی خانے تھے۔ دھوئیں کی نکاس کا انتظام تھا۔ عبادت گاہیں اور قربانی کی جگہیں بھی بنائی گئی تھیں۔ حتیٰ کہ یہاں باربرداری کے لیے جانوروں کے رکھنے کا بھی بندوبست کیا گیا تھا۔
شہر کیا تھا، ایک پورا جہان آباد تھا جہاں زندگی بھرپور انداز میں متحرک اور رواں رہتی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب بھی پراسرار شہر کے ایک بڑے حصے تک رسائی نہیں ہو سکی ہے جسے دریافت کرنا ابھی باقی ہے۔
سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ شہر زمین کی سطح سے لگ بھگ 280 فٹ نیچے واقع تھا۔ جس طرح یہ شہر زمین کی گہرائی میں ہے، اسی طرح تاریخ میں بھی اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اس شہر کا تعلق سن عیسوی سے بھی 900 سال پہلے سے ہے۔
آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ شہر 9 لاکھ مربع میٹر کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے جس کا ابھی تک ایک مختصر حصہ ہی دریافت ہو سکا ہے۔
کھدائی کی نگرانی کرنے والے ڈائریکٹر مروان یاوز کہتے ہیں کہ زمین کی گہرائی میں شہر بسانے کی مختلف وجوہات ہیں۔ شاید قدیم زمانے میں موسم کی شدت سے بچنے کے لیے یہاں پناہ لی جاتی ہو۔ یا پھر ممکن ہے کہ دشمنوں سے چھپنے کے لیے یہ غار اور کمرے استعمال کیے جاتے ہوں۔
طویل قیام نے رفتہ رفتہ ان غاروں کو حقیقی شہر میں بدل دیا اور لوگ ان میں رہنے کے اتنے عادی ہو گئے کہ انہوں نے یہاں مستقل رہائش اختیار کر لی۔
غاروں اور کمروں کی ساخت اور نقش و نگار سے تاریخ دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ یہاں رہنے والوں کا تعلق حکمران آشورناسرپال دوم کے دور سے تھا۔جس کی حکومت کا عہد 883 سے 859 قبل از مسیح سے ہے۔ اس کی سلطنت مشرق میں خلیج سے لے کر مغرب میں مصر تک پھیلی ہوئی تھی۔
مدیت کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیے جانے کے قیاس کو تقویت اس لیے بھی ملتی ہے کہ شہر میں داخل ہونے کا چٹانی راستہ اس قدر تنگ ہے کہ اس میں جھک کر داخل ہونا پڑتا ہے۔
تاریخ دان کہتے ہیں کہ اس علاقے کا شمار، جسے ایک زمانے میں میسوپوٹیمیا کہا جاتا ہے، دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں کیا جاتا ہے۔ اس خطے میں مختلف سلطنتیں قائم رہیں۔ عربوں سے پہلے یہاں رومی اور بازنطینی حکومت کرتے رہے۔ مخالفین کو تہہ تیغ کرنا قدیم حکمرانوں کا شیوہ تھا۔ جس سے بچنے کے لیے لوگ ان غاروں میں پناہ لیتے تھے۔
تاریخ دان اکرام اکمان کہتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ جب یہودیت اور عیسایت پھیلنی شروع ہوئی تو حکمرانوں کا تعلق قدیم روایتی عقائد سے تھا۔ انہوں نے نئے مذاہب کا پھیلاؤ روکنے کے لیے قتل و غارت سے کام لیا۔ اس دور میں مدیت کے غاروں نے فرار ہونے والوں کو تحفظ فراہم کیا ہو گا۔
اکمان کا کہنا تھا کہ ان غاروں اور کمروں میں جس طرح کے نقش و نگار اور علامات ملتی ہیں، مثال کے طور پر گھوڑا، آٹھ کونوں والا ستارہ، یا مخصوص درخت یا فرش پر بچھی ہوئی سلیب وغیرہ، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس زیر زمین شہر میں رہنے والوں کا حقیقی مذہب کیا تھا، یا وقت کے ساتھ ان کے عقائد میں کیا تبدیلیاں آتی رہیں۔
زیر زمین شہر سے دریافت ہونے والی چیزیں ایک میوزیم میں رکھی گئیں ہیں جس کے کیوریٹر گانی ترکان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ غاروں کے شہر سے گھریلو اشیاء، کانسی اور مٹی کے برتن اور اس طرح کی بہت سے دوسری چیزیں ملی ہیں جن میں شراب کشید کرنے والے آلات بھی شامل ہیں، جس سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ یہ غار عارضی ٹھکانہ نہیں تھے بلکہ لوگ انہیں مستقل رہائش کے لیے استعمال کرتے تھے۔
مدیت تقریباً 2000 سال تک زندہ رہا۔ کئی مورخین کا کہنا ہے کہ اس شہر کے آخری مکین 1920 کے لگ بھگ یہاں سے چلے گئے تھے اور پھر وقت کی گرد نے اسے عشروں تک ہماری نظروں سے اوجھل رکھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس علاقے میں مدیت واحد زیر زمین شہر نہیں ہے بلکہ مزید 40 ایسے مقامات کی نشان دہی ہو چکی ہے جہاں زیر زمین شہر موجود ہیں۔ مدیت کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ ان سب کے مقابلے میں بڑا بلکہ بہت بڑا شہر ہے۔