رسائی کے لنکس

'کولا نیکسٹ' کے مالک کا 'اغوا' اور 'پراسرار' رہائی؛ کراچی کے تاجر پریشان


کولا کمپنی کے مالک میاں ذوالفقار کو 23 جولائی کو کراچی سے مبینہ طور پر اغوا کر لیا گیا تھا۔
کولا کمپنی کے مالک میاں ذوالفقار کو 23 جولائی کو کراچی سے مبینہ طور پر اغوا کر لیا گیا تھا۔
  • کراچی سے دن دیہاڑے کولا کمپنی کے مالک کے مبینہ اغوا کا معاملہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
  • تئیس جولائی کو کراچی سے لاپتا ہونے والے تاجر میاں ذوالفقار احمد اتوار کی شب لاہور میں اپنے گھر پہنچ گئے تھے۔
  • یہ واضح نہیں ہو سکا کہ میاں ذوالفقار کو کس نے اور کیوں اغوا کیا اور کیا اُنہیں رہائی کے لیے تاوان بھی دینا پڑا۔
  • کراچی کی تاجر کمیونٹی نے تاجر کے مبینہ اغوا کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

کراچی سے گزشتہ ہفتے پراسرار حالات میں 'اغوا' ہونے والے معروف صنعت کار اور تاجر میاں ذوالفقار احمد اتوار کی رات لاہور میں اپنے گھر واپس پہنچ گئے ہیں۔ تاہم ابھی تک پولیس کو یہ واضح نہیں کہ انہیں کس نے اغوا کیا اور کیا وہ تاوان دے کر رہا ہوئے ہیں یا نہیں؟

لیکن دوسری جانب کراچی سے معروف تاجر کے دن دیہاڑے اغوا کے باعث تاجر برادری تشویش میں مبتلا ہے اور وہ مختلف خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

ایف آئی آر کے مطابق میاں ذوالفقار احمد کو 23 جولائی کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ اپنے دوست کے ہمراہ ماری پور سے کلفٹن جا رہے تھے۔

میاں ذوالفقار کی گاڑی کو اسلحے کے زور پر روکا گیا اور عینی شاہدین کے مطابق آٹھ نامعلوم مسلح افراد اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔

پولیس کو مقدمے کے اندراج کی درخواست اسی روز رات میں جمع کرا دی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود مقدمہ درج ہونے میں پولیس نے مزید تین روز تک انتظار کیا۔

مقدمے کے اندراج میں غیر معمولی تاخیر پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جب کہ پولیس افسران اس مقدمے میں ان سوالات کا جواب دینے سے گریز کرتے نظر آ رہے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے صورتِ حال تب ہی واضح ہو گی جب ذوالفقار احمد کا بیان ریکارڈ کیا جائے گا۔ تاہم ملک کے چوٹی کے تاجروں میں شمار ہونے والے میاں ذوالفقار احمد کی پراسرار رہائی نے اس بارے میں خدشات کو مزید تقویت دی ہے۔

آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ

تاجر رہنما اور وائس چیئرمین فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (ایف پی سی سی آئی) امان پراچہ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح کا اغوا نہ صرف تاجر برادری بلکہ ملک کے تجارتی مرکز کراچی کے عمومی تاثر کے لیے بھی خطرہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک طرف حکومت پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کی کوشش کر رہی ہے تو دوسری طرف ملک کے سب سے بڑے شہر میں امن و امان کی صورتِ حال مخدوش ہے جہاں دن دیہاڑے تاجروں کو اغوا کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات کی مکمل چھان بین کی جانی چاہیے اور اس کے پس پردہ حقائق کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔

امان پراچہ کے مطابق اس قسم کے واقعات سے ملک میں امن و امان سے متعلق بڑا خراب تاثر جاتا ہے اور چھوٹے بڑے تمام ہی تاجروں میں خوف کی فضا ہے۔ ایسے واقعات سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح کرنے اور سرمائے کی بیرون ملک منتقلی میں تیزی لانے کا سبب بنیں گے۔

دوسری جانب ایک اور تاجر رہنما اور چیئرمین ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی پاکستان زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ امن و امان کی مخدوش صورتِ حال اور صنعت کاروں کے اغوا کی وارداتوں کے باعث سرمایہ کاری متاثر ہو رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ ملکی برآمدات میں کراچی کا حصہ پانچ فی صد کم ہو گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ملکی برآمدات میں کراچی کا شیئر چند سال قبل 64 فی صد تھا جو اب کم ہوکر 59 فی صد پر آ گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ امن وامان کی خراب صورتِ حال، انفراسٹرکچر کی تباہ حالی اور زمینوں پر منظم نظام کے تحت قبضے ہیں۔

زبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ کراچی کے چھ میں سے صرف ایک، سائٹ صنعتی ایریا میں 23 اسپننگ ملز بند اور 13 فروخت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ متعدد صنعتوں نے دو شفٹیں ختم کر کے ایک شفٹ کردی ہے۔

پاکستان کی تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کا مرکز اور بندرگاہ رکھنے والا شہر کراچی ماضی میں بھی سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔

اب بھی دو کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں جرائم کی شرح بلند ہے۔ اگرچہ ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری جیسے سنگین جرائم میں گزشتہ برسوں میں کمی دیکھی گئی ہے۔

لیکن اسٹریٹ کرائمز، چوریوں، ڈکیتیوں جیسے جرائم میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ڈکیتیوں کے دوران مزاحمت پر شہر میں رواں سال مارے جانے والے افراد کی تعداد 60 سے زیادہ ہو چکی ہے۔

سیکیورٹی ماہرین شہر میں جرائم کی وارداتوں پر قابو نہ پانے کی وجوہات میں کمزور پولیسنگ، ٹیکنالوجی کے استعمال کا فقدان، شہادتیں جمع کرنے میں کوتاہیاں اور دیگر وجوہات بتاتے ہیں۔

امریکی بزنس میگزین 'فوربس' نے کراچی کو سیاحوں کے لیے دنیا کا دوسرا خطرناک شہر قرار دیا ہے۔

رواں ماہ جاری ہونے والی ریٹنگ میں کراچی کو 100 میں سے 93.12 کی ریٹنگ کے ساتھ سیاحوں کے لیے دوسرے سب سے زیادہ خطرناک شہر کے طور پر درجہ دیا گیا ہے۔

ایڈوائزری میں تین خطرناک ترین شہروں کی فہرست میں بتایا گیا کہ وینزویلا کا شہر کراکس سیاحوں کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک شہر ہے جس کا اسکور 100 تھا جب ہ میانمار کا ینگون 100 میں سے 91.67 کے اسکور کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

اگرچہ ملک میں ایک سال کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری میں 17 فی صد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ لیکن یہ مالی سال 2024 کے اختتام پر محض ایک ارب 90 کروڑ ڈالر تک محدود رہی جو ملکی تاریخ میں کم ترین سرمایہ کاری میں سے ایک سال تھا۔

دوسری جانب سندھ حکومت اس بات سے اتفاق نہیں کرتی کہ صوبے میں سرمایہ کاری اور تجارت کے لیے حالات سازگار نہیں۔

صوبائی وزیر صنعت و پیداوار جام اکرام اللہ دھاریجو کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت اپنی کارکردگی کے حوالے سے مطمئن ہے۔

کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جام اکرام اللہ دھاریجو کا کہنا تھا کہ صوبے بالخصوص کراچی میں پہلے کی نسبت امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے۔

جام اکرام اللّٰہ دھاریجو نے دعویٰ کیا کہ ذوالفقار پراچہ کے اغوا پر ضروری قانونی کارروائی کے بعد آئی جی سندھ یا متعلقہ ڈی آئی جی جلد بریفنگ دیں گے۔

ادھر صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لنجار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مزید چوکس ہیں اور حکومت ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تمام تر کوششیں کر رہی ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG