’لوگوں کو زیادہ غصہ آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ پانی کم پیتے ہیں اور ورزش نہیں کرتے، جبکہ میڈیا میں دکھایا جانے والا تشدد بھی اس کی ایک وجہ ہے‘: ایک معالج کی رائے
کراچی —
کسی کو کسی بات پر غصہ آتا ہے تو کسی کو کسی اور بات پر۔ کسی کو کبھی کبھار غصہ آتا ہے تو کسی کو ہر بات پر۔ کسی کو کم تو کسی کو زیادہ اور کسی کا غصہ تھوڑی ہی دیر میں ختم ہو جاتا ہے تو کسی کو غصہ آتا ہے تو بڑھتا ہی چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ باتوں کے بعد بات لاتوں تک چلی جاتی ہے۔
’ریڈرز ڈائجسٹ‘ میں شائع ہونے والے مضمون ’وائی سو اینگری؟‘ کے مطابق، دوسرے جذبات کی طرح، انسانی تاریخ میں غصے نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا؛ کیونکہ، اگر دشمن کے سامنے طیش کا اظہار نہ کیا جاتا تو انسان بھوک سے یا لڑائی میں مارا جاتا اور زندہ نہ رہ پاتا۔
مضمون کے مطابق، لوگ ایک دوسرے کے رویوں پر غصہ کرکے یہ بتا دیتے ہیں کہ انھیں کیا نا پسند ہے، تاکہ دوسرا اپنا رویہ بدل لے۔ اور یوں، تعلقات برقرار رہتے ہیں۔ لوگ بچوں کی طرح چاہتے ہیں کہ ہر چیز ان کی مرضی کے مطابق ہو اور جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ غصے میں آجاتے ہیں۔
آج کے جدید معاشرے میں وہ خطرات تو نہیں جو ماضی میں انسان کو لاحق تھے۔ اور یوں، اپنی وہی پرانی سوچ کی وجہ سے انسان معمولی باتوں پر بھی بہت غصے میں آجاتا ہے۔
’ریڈرز ڈائجسٹ‘ کے مطابق، مدر ٹریسا کو بھی غصہ آتا تھا۔ لیکن، غربت پہ؛ گاندھی کو لوگوں کی بھوک پہ؛ مارٹن لوتھر کنگ کو سماجی نا انصافی پر؛ جبکہ بہت سے لوگوں کو معمولی باتوں پر۔ اور یوں، اگر کسی کو کسی بات پر غصہ آئے تو اسے یہ سوچنا چاہئے کہ کیا وہ مسئلہ زندگی اور موت کا ہے۔ اور اگر وہ بات اس قابل نہیں کہ اس پر غصہ کیا جائے، تو اپنے غصے کو قابو کرتے ہوئے اسے کسی جائز بات کے لئے رکھ چھوڑنا چاہئے۔
کراچی کے جناح اسپتال میں نفسیات اور اعصابیات کے شعبے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں لوگوں میں برداشت بہت کم ہوگئی ہے اور انھیں چھوٹی چھوٹی باتوں پہ غصہ آجاتا ہے۔
ُان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو زیادہ غصہ آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ پانی کم پیتے ہیں اور ورزش نہیں کرتے، جبکہ میڈیا میں دکھایا جانے والا تشدد بھی اس کی ایک وجہ ہے۔
پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ انھیں تب غصہ آتا ہے جب کوئی غلط بات یا کام ہو۔ لیکن، بات تو تب ہے کہ کوئی گاڑی اونچے نیچے راستوں پر بھی اچھی چلے کیونکہ ہموار سڑک پر تو ہر گاڑی اچھی چلتی ہی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ غصہ کرنا دوسرے کی غلطی کی سزا خود کو دینا ہے۔
پروفیسر آفریدی نے کہا کہ اگر انسان یہ سمجھ لے کہ غصہ کرنا ٹھیک نہیں اور وہ خود کو بدلنا چاہے تو پھر اسے سمجھایا جاتا ہے کہ وہ سوچے کہ غصہ کرنے سے اسے کیا فائدہ ہوا اور کیا نقصان۔ اور، اس موقعے پر غصے کا نعم البدل کیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ، زیادہ پانی پینے اور باقائدہ ورزش کرنے سے بھی غصے پہ قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔
’ریڈرز ڈائجسٹ‘ میں شائع ہونے والے مضمون ’وائی سو اینگری؟‘ کے مطابق، دوسرے جذبات کی طرح، انسانی تاریخ میں غصے نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا؛ کیونکہ، اگر دشمن کے سامنے طیش کا اظہار نہ کیا جاتا تو انسان بھوک سے یا لڑائی میں مارا جاتا اور زندہ نہ رہ پاتا۔
مضمون کے مطابق، لوگ ایک دوسرے کے رویوں پر غصہ کرکے یہ بتا دیتے ہیں کہ انھیں کیا نا پسند ہے، تاکہ دوسرا اپنا رویہ بدل لے۔ اور یوں، تعلقات برقرار رہتے ہیں۔ لوگ بچوں کی طرح چاہتے ہیں کہ ہر چیز ان کی مرضی کے مطابق ہو اور جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ غصے میں آجاتے ہیں۔
آج کے جدید معاشرے میں وہ خطرات تو نہیں جو ماضی میں انسان کو لاحق تھے۔ اور یوں، اپنی وہی پرانی سوچ کی وجہ سے انسان معمولی باتوں پر بھی بہت غصے میں آجاتا ہے۔
’ریڈرز ڈائجسٹ‘ کے مطابق، مدر ٹریسا کو بھی غصہ آتا تھا۔ لیکن، غربت پہ؛ گاندھی کو لوگوں کی بھوک پہ؛ مارٹن لوتھر کنگ کو سماجی نا انصافی پر؛ جبکہ بہت سے لوگوں کو معمولی باتوں پر۔ اور یوں، اگر کسی کو کسی بات پر غصہ آئے تو اسے یہ سوچنا چاہئے کہ کیا وہ مسئلہ زندگی اور موت کا ہے۔ اور اگر وہ بات اس قابل نہیں کہ اس پر غصہ کیا جائے، تو اپنے غصے کو قابو کرتے ہوئے اسے کسی جائز بات کے لئے رکھ چھوڑنا چاہئے۔
کراچی کے جناح اسپتال میں نفسیات اور اعصابیات کے شعبے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں لوگوں میں برداشت بہت کم ہوگئی ہے اور انھیں چھوٹی چھوٹی باتوں پہ غصہ آجاتا ہے۔
ُان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو زیادہ غصہ آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ پانی کم پیتے ہیں اور ورزش نہیں کرتے، جبکہ میڈیا میں دکھایا جانے والا تشدد بھی اس کی ایک وجہ ہے۔
پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ انھیں تب غصہ آتا ہے جب کوئی غلط بات یا کام ہو۔ لیکن، بات تو تب ہے کہ کوئی گاڑی اونچے نیچے راستوں پر بھی اچھی چلے کیونکہ ہموار سڑک پر تو ہر گاڑی اچھی چلتی ہی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ غصہ کرنا دوسرے کی غلطی کی سزا خود کو دینا ہے۔
پروفیسر آفریدی نے کہا کہ اگر انسان یہ سمجھ لے کہ غصہ کرنا ٹھیک نہیں اور وہ خود کو بدلنا چاہے تو پھر اسے سمجھایا جاتا ہے کہ وہ سوچے کہ غصہ کرنے سے اسے کیا فائدہ ہوا اور کیا نقصان۔ اور، اس موقعے پر غصے کا نعم البدل کیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ، زیادہ پانی پینے اور باقائدہ ورزش کرنے سے بھی غصے پہ قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔