حلب میں باغیوں کے زیر قبضہ آخری حصے سے جمعرات کے روز زخمیوں اور عام شہریوں کو بسوں اور ایمبولنسز کے ذریعے نکالنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ، جس پر ایک روز پہلے عمل درآمد سرکاری فورسز اور باغیوں کے درمیان شدید جھڑپوں کے باعث روک دیا گیا تھا۔
بسوں اور ایمبولنسز کی لمبی قظاریں حلب کے مشرقی علاقے سے جو اس وقت محاصرے میں ہے، حکومتی کنٹرول کے علاقوں کی طرف جا رہی ہیں جن کی آخری منزل ایک اور صوبے کا وہ علاقہ ہے جس پر باغیوں کا قبضہ ہے۔
ریڈکراس کی بین الاقوامی کمیٹی اور سیرین عرب ریڈ کریسنٹ سوسائٹی نے کہا ہے کہ حلب سے نکلنے والا پہلا قافلہ جمعرات کی سہ پہر حفاظتی زون میں پہنچ گیا۔
صحت کے عالمی ادارے کے مطابق انخلا کے عمل میں 21 بسیں اور 19 ایمبولنس گاڑیوں نے حصہ لیا۔
ریڈ کراس کے بین الاقوامی ادارے اور شام کی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی نے کہا ہے کہ وہ لگ بھگ دوسو زخمیوں کے انخلا میں شامل ہیں جن میں سے کچھ کی حالت نازک ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے امور سے متعلق سفیر جین ایگلینڈ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ انہیں امید ہے کہ وہ مشرقی حلب میں ، جس پر باغیوں نے 2012 میں قبضہ کر لیا تھا، انخلا کی آخری اور کامیاب کوشش کا آغاز ہوتا دیکھیں گے۔
آج روس نے اس بارے میں تفصیلات فراہم کی ہیں کہ ٹاسک فورس میں انخلا کیسے ہو گا اور انہوں نے تصدیق کی ہے کہ روسی اس عمل کی نگرانی کررہے ہوں گے ۔ اور یہ ایک ایسا انخلا ہے جو فوری طور پر ہو گا اور اس میں بیورو کریسی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا اور اس میں کوئی بے جا مداخلت نہیں ہوگی اور جن لوگوں کا انخلا ہو گا انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
شام کے ٹیلی وژن نے شام کے پرچم کی تصاویر نشر کیں جنہیں جمعرات کے روز مشرقی حلب میں ایک بلند مقام پر لہرایا جا رہا تھا۔
حلب کے رہائشیوں کو اس وقت امدادی گاڑیوں کی جانب دوڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا جب وہ شہر میں داخل ہو نے کے لیے اپنا راستہ بنا رہی تھیں ۔
ایگلینڈ نے کہا کہ شہر سے جن لوگوں کو نکالا جا رہا ہے ان میں زخمیوں اور بیمار اور کمزور افراد اور دوسرے کمزور شہری اور باغی جنگجو وں شامل ہیں ۔
یہ کارروائی بدھ کی رات ایک معاہدہ طے پانے کے بعد ہوئی تھی لیکن جس پر عمل درآمد اس وقت بہت غیر یقینی ہو گیا جب بدھ کی صبح ایک طے شدہ انخلا پر عمل درآمد نہ ہو سکا اور حلب میں ایک فائر بندی ناکام ہو گئی۔
جمعرات کی صبح تشدد کے مزید واقعات کی خبریں ملیں اور سرگرم کارکن اور طبی شعبے کے مقامی عہدے داروں نے بتایا کہ حکومت نواز فورسز نے ایک ایمبولینس پر فائرنگ کی جس نے باغیوں کے زیر قبضہ علاقے سے نکلنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں تین لوگ زخمی ہو گئے ۔
حلب سے باغیوں کی حتمی روانگی شام کے صدر بشار الاسد کی ایک بڑی کامیابی ہو گی۔ حلب پر کئی برسوں کی لڑائی اور حکومت کے محاصرے نے شہر کے بیشتر علاقے کو ملبے میں تبدیل کر دیا ہے۔
اس سے پہلے میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ شام کے شہر حلب میں باغیوں کی زیر کنٹرول علاقے سے لوگوں کے انخلا کے لیے بسیں اور ایمبولینس گاڑیاں جمعرات کو تیارکھڑی ہیں تاہم مسلسل دوسرے دن بھی یہ واضح نہیں کہ انخلا کے اس منصوبے پر عمل درآمد ہو گا یا نہیں۔
یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ لوگ جنہیں طبی امداد کی ضرورت ہے انہیں سب سے پہلے مشرقی حلب نکالا جائے گا جب کہ اس کے بعد دیگر عام شہریوں اور باغیوں کو نکالا جائے گا۔
یہ وہ علاقہ ہے جہاں 2012 میں حزب مخالف کی فورسز نے قبضہ کر لیا تھا۔ مقامی سرگرم کارکنوں اور طبی امدادی کارکنوں نے کہا کہ حکومت نواز فورسز نے اس ایمبولینس گاڑی پر فائرنگ کی جس نے باغیوں کی زیر کنٹرول علاقے سے باہر جانے کی کوشش کی اور اس سے تین افراد زخمی ہوئے۔
اُدھر شامی باغیوں نے بدھ دیر گئے کہا تھا کہ مشرقی حلب سے عام شہریوں اور جنگ کی وجہ سے زخمی ہونے والے افراد کے انخلا کے لیے ایک نیا سمجھوتہ طے پا گیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے سے پناہ گزین آئندہ چند گھنٹوں کے بعد نکلنا شروع ہو جائیں گے۔
حلب میں باغیوں کے ذرائع اور اقوام متحدہ کے کارکنوں نے نئی جنگ بندی کی اطلاعات کی تصدیق کی ہے تاہم شام میں سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی سمجھوتے سے آگاہ نہیں ہیں۔
اگر شہر سےانخلا شروع ہو جاتا ہے تو حلب میں مزاحمت کا خاتمہ صدر بشاالاسد کے لیے ایک بڑی فتح ہو گی۔
اس سے پہلے لڑائی روکنے کے لیے منگل کو طے پانے والا سمجھوتہ، محصور علاقے سے انخلا سے قبل ہی ناکام ہو گیا تھا اور پہلے شہر میں ایک بار بھی لڑائی شروع ہو گئی۔
جنگ زدہ مشرقی حلب میں سردی اور بھوک کا شکار عام شہری بحفاظت شہر سے نکلنے کی امید پر جمع ہوئے۔
اس علاقے میں سرگرم ایک کارکن محمد الخطاب جس سے ایک نامہ نگار نے رابطہ قائم کیا نے کہا کہ"بمباری جاری ہے، کوئی بھی حرکت نہیں کر سکتا ہے۔ ہر کوئی چھپا ہوا اور خوف زدہ ہے۔"
"زخمی اور مارے جانے والے گلیوں میں پڑے ہیں۔کسی میں بھی یہ حوصلہ نہیں ہے کہ وہ لاشوں کو نکالنے کی کوشش کرے۔"
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ زید راعد الحسن نے کہا کہ بدھ کو دوبارہ شروع ہونے والے لڑائی خوفناک ہے اور شامی فورسز اور ان کے اتحادیوں کی ان علاقوں پر شدید بمباری شروع کرنا ''امکانی طور پر جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔"
زید نے شامی حکومت سے حلب شہر کے مکینوں کو طبی امداد فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت ایسا کرنا ضروری ہے۔
برطانیہ میں قائم تنظیم ’سیرئین آبزرویٹری فار ہیومین رائٹس‘ نے کہا کہ باغیوں اور سرکاری کنٹرول والے علاقوں میں "ہر محاذ پر شدید لڑائی ہو رہی تھی۔" یہ اطلاعات ملی کہ دونوں فریقین کا جانی نقصان ہوا۔