امریکہ میں گزشتہ ہفتے مزید 15 لاکھ افراد نے محکمہ محنت کو آگاہ کیا کہ وہ بیروزگار ہوگئے ہیں اور انھیں مدد کی ضرورت ہے۔
اس طرح کرونا وائرس کی وجہ سے بارہ ہفتوں میں ذریعہ آمدن سے محروم ہوجانے والے امریکیوں کی تعداد 4 کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ گئی ہے جو امریکی ورک فورس کا 29 فیصد ہے۔
اگرچہ نئے بیروزگار افراد کی تعداد ہر ہفتے کم ہو رہی ہے اور گزشتہ ہفتے کا ہندسہ سب سے چھوٹا ہے، لیکن پھر بھی وبا سے پہلے گزشتہ سال کے دوران کسی بھی ہفتے میں بیروزگار ہوجانے والوں سے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔
وبا کی وجہ سے وفاق کے زیر انتظام پروگرام میں ملازمت پیشہ افراد کے علاوہ سیلف ایمپلائیڈ لوگ بھی درخواست دے سکتے ہیں۔ ان کی تعداد گزشتہ ہفتے 6 لاکھ 20 ہزار سے بڑھ کر 7 لاکھ 5 ہزار ہوئی ہے۔ اس تعداد میں اضافے سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاشی بحران سے ہر طرح کے لوگ متاثر ہورہے ہیں۔
جو لوگ حکومت سے بینیفیٹس حاصل کررہے ہیں ان کی تعداد 2 کروڑ 13 لاکھ سے کچھ کم ہوکر 2 کروڑ 9 لاکھ ہوئی ہے۔ ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ اس کا سبب کاروبار کا دوبارہ کھلنا ہے۔
مئی میں بیروزگاری کی شرح میں کمی نے بعض معاشی ماہرین کو حیران کیا تھا جبکہ صدر ٹرمپ نے اسے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ بدترین وقت گزر چکا اور اب معیشت بہتر ہونا شروع ہوگئی ہے۔ لیکن بیروزگاری کی سرکاری شرح اب بھی گریٹ ڈپریشن کے بعد سے سب سے بلند ہے۔
لاک ڈاؤن ختم ہونے سے جن سیکٹرز میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں ان میں ریسٹورنٹس، خوردہ فروشی اور خدمات کے شعبے شامل ہیں۔ لیکن، یہ خدشات برقرار ہیں کہ معاشی زوال کی ایک اور لہر آسکتی ہے۔
بدھ کو مرکزی بینک کے سربراہ جیروم پاول نے خبردار کیا تھا کہ لاکھوں لوگ دوبارہ روزگار حاصل نہیں کرپائیں گے یا انھیں ملازمت حاصل کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔
فیڈرل ریزرو نے پیش گوئی کی ہے کہ سال کے آخر تک بیروزگاری کی شرح 9٫3 فیصد ہوگی جبکہ معیشت 6 فیصد گھٹے گی۔