جوہری تحفظ، ترجیحات پر عمل درآمد لازم: ماہرین

  • خلیل بگھیو

فائل

ماہرین نے توقع کا اظہار کیا کہ نیدرلینڈ میں (مارچ کی 24 اور 25) کو منعقد ہونے والا جوہری تحفظ سے متعلق تیسرا سربراہ اجلاس، عالمی سطح کی اِن ملاقاتوں کے عمل کو ایک قابل قدر ورثے میں بدلنے کی ایک کوشش ہونی چاہیئے
سلامتی سے متعلق 70 سے زائد ماہرین، جِن کا تعلق غیرجانبدار اتحاد سے ہے، کہا ہے کہ 2009ء میں صدر اوباما کی انتظامیہ نے جوہری دہشت گردی کے امکان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہر دو برس بعد جوہری سلامتی کے سربراہ اجلاسوں کا عمل شروع کیا۔ اتحاد کے بقول، ’نیوکلیئر سکیورٹی‘ کے عالمی معیار پر عمل درآمد پر توجہ کم کرکے، اوباما انتظامیہ نے محظ اِس کی توثیق پر اکتفا کرلیا ہے۔

بدھ کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں ’جوہری مواد پر قائم ورکنگ گروپ‘ نے کہا ہے کہ انتظامیہ کے مؤقف میں اس تبدیلی کے باعث عالمی رہنماؤں کو شہ مل سکتی ہے۔ اِس ماہ کے اواخر میں ہیگ میں جوہری تحفظ پرتیسرا سربراہ اجلاس منعقد ہونے والا ہے، جس میں ہتھیار بنانے کےقابل جوہری مواد کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے لازمی نوعیت کے ضابطے منظور کیے جائیں گے۔

کنیتھ لئونگو ’پارٹنرشپ فور گلوبل سکیورٹی‘ کے صدر ہیں۔ بقول اُن کے، انتظامیہ کا یہ نیا انداز اختیار کیا جانا اِس بات کا واضح اظہار ہے کہ جوہری تحفظ کے عالمی منظرنامے کو مضبوط کیے جانے کی ضرورت ہے اور یہ کہ بہتر نتائج تبھی برآمد ہوں گے اگر عالمی طرز عمل اختیار کیا جائے۔

اُنھوں نے توقع کا اظہار کیا کہ نیدرلینڈ میں (مارچ کی 24 اور 25) کو منعقد ہونے والا جوہری تحفظ سے متعلق تیسرا سربراہ اجلاس، عالمی سطح کی اِن ملاقاتوں کے عمل کو ایک قابل قدر ورثے میں بدلنے کی ایک کوشش ہونی چاہیئے۔

یاد رہے کہ صدر اوباما نےپانچ برس قبل نیوکلیئر سکیورٹی کے سربراہ اجلاسوں کی بنیاد رکھی تھی، جس ضمن میں اب تک قابل قدر پیش رفت ہو چکی ہے، اور ضرررساں جوہری مواد کو محفوظ بنانا، خصوصی طور پر یوکرین سمیت 12 ملکوں میں ہتھیاروں کی تیاری کے درجے کے ذخیروں کو تلف کیے جانے کا معاملہ شامل ہے۔

ماہرین کاکہنا ہے کہ اب بھی دنیا بھر میں تقریباً 2000میٹرک ٹن جوہری مواد موجود ہے جس سے ہتھیار بنائے جاسکتے ہیں، اور یہ ذخیرے دنیا کے سینکڑوں مقامات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس سے کم از کم 80،000جوہری بم بن سکتے ہیں، جن میں سے ہرایک دوسری عالمی جنگ میں ناگاساکی کو تباہ کرنے سے زیادہ کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اِن میں سے زیادہ تر مواد فوج کے کنٹرول میں ہے، لیکن اِس مواد کی کافی مقدار سویلین مقامات پر موجود ہے۔

مائلز پومپر ’مونٹینری انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز‘ میں ایک اعلیٰ تحقیق کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سول سوسائٹی کے لیے لازم ہے کہ وہ حکومتوں پر دباؤ برقرار رکھیں، تاکہ اِس ماہ ہونے والے سربراہ اجلاس اور 2016ء کا اگلا سربراہ اجلاس مروجہ کھوکھلے بین الاقوامی طرز عمل میں بہتری لاسکے۔

’فِسائیل مٹیرئل ورکنگ گروپ‘ نے جوہری دہشت گردی کے امکان کے خلاف حفاظتی حصار کے انتظام کو مضبوط بنانے کے لیے اضافی سفارشات پیش کی ہیں، جِن میں تمام موجودہ نیوکلیئر سکیورٹی سمجھوتوں پر عمل درآمد کرنا؛ موجودہ قانونی ضروریات سے ہٹ کر قلیل مدتی نوعیت کے اضافی معیار کی داغ بیل ڈالنے کی حمایت کرنا؛ اور طویل مدتی تحفظ کی فکر کرنا شامل ہے، جِس میں اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ الگ تھلگ کوششوں کو مجتمع کرکے ایک کارآمد ڈھانچہ وضع کیا جائے۔

ورکنگ گروپ اس سال مارچ کی 21 اور 22 تاریخ کو امسٹرڈم میں ’نیوکلیئر نالیج سمٹ‘ منعقد کرے گا، جو ہیگ میں مارچ کی 24 اور 25 کو ہونے والی ’نیوکلیئر سکیورٹی سمٹ‘ سے قبل منعقد ہونے والا سرکاری ماہرین کا اجلاس ہے۔

یہ ورکنگ گروپ جوہری تحفظ کے سلسلے میں دنیا بھر کے 70 سے زائد سرکردہ ماہرین اور غیر سرکاری اداروں پر مشتمل ایک اتحاد ہے۔ اس کا مقصد جوہری ہتھیار بنانے کے قابل مواد کو جلد از جلد محفوظ بنانے کے ہدف کو حاصل کرنا اور اہداف پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے۔