|
مئی کے وسط میں علی الصبح سید عیاض اور ان کے ہی جیسے دیگر بے روزگار فلسطینی شہری مقبوضہ مغربی کنارے اور اسرائیل کو تقسیم کرنے والی، دیو ہیکل کنکریٹ کی دیوار کو پھلانگنے کے لیے جمع ہوئے جس پر خاردار تار بھی لگے ہیں۔
انہیں ایک اسمگلر نے سیڑھی اور رسی لا کر دی۔ ہر آدمی نے سو ڈالر کے لگ بھگ رقم اس اسمگلر کو تھمائی۔ عیاض دوسروں کے اس دیوار کو پھلانگنے کے دوران، صبر سےاپنی باری کا انتظار کرتے رہے۔
تیس برس کے عیاض کی دو بیٹیاں ہیں۔ انہیں ایک سال سے کہیں کام نہیں ملا۔ ادھار بڑھتا جا رہا ہے اور کرایہ بھی تو دینا ہے۔ اور کام اسرائیل کی جانب تعمیری سیکٹر میں ہے، اس لیے انہیں اس دیوار کے پار جانا پڑے گا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب حالت یہاں تک پہنچ جائے کہ آپ کے بچوں کو کھلانے کے لیے کھانا ہی نہ ہو تو ڈر بھی ختم ہو جاتا ہے۔
غزہ میں ایک برس سے جاری جنگ کے اثرات مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں جہاں کے بارے میں ورلڈ بینک نے انتباہ جاری کیا ہے کہ معیشت اسرائیل کی جانب سے فلسطینی مزدوروں پر عائد پابندیوں کی وجہ سے زوال کا شکار ہے۔
SEE ALSO: مغربی کنارہ:یہودی بستیوں کے خلاف احتجاج میں ہلاک ہونے والی امریکی سر گرم کارکن کو خراج عقیدتبے روزگاری کی شرح، جو ایک برس قبل 12 فیصد تھی، اب 30 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ فلسطینی معیشت کی وزارت کے مطابق گزشتہ ایک برس میں تین لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو، جن میں سے اکثر اسرائیل میں روزگار حاصل کرتے تھے، انہیں ان کی ملازمتوں سے نکال دیا گیا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق 2024 کے پہلے کوارٹر کے دوران فلسطینی علاقوں کی معیشت 25 فیصد سکڑ گئی ہے۔
ملازمتوں کی تلاش میں پریشان بعض فلسطینی نقصان کی پرواہ کیے بغیر اسمگلرز کے سہارے سخت پہرے والی ایسی رکاوٹوں کو پھلانگنے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔
جب اسرائیلی فورسز انہیں دیکھتی ہیں، تو انہیں گرفتار کر لیتی ہیں، اور کئی بار تو انہوں نے ایسے فلسطینیوں پر فائرنگ بھی کی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے پاس ایسے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں جن سے ان مزدوروں کی تعداد کا پتہ چل سکے، جو اسرائیلی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایسے تین خاندانوں سے بات کی ہے، جن کا کہنا ہے کہ ان کے رشتے دار دیوار پھلانگتے ہوئے فائرنگ سے ہلاک ہوئےہیں۔
SEE ALSO: وہ جنگ جس میں اسرائیل عرب ممالک کو شکست دے کر خطے کی بڑی طاقت بنافلسطینی مزدوروں کے حقوق پر کام کرنے والی ایسوسی ایشن مان کے ڈائریکٹر آصف ایڈیو کا کہنا ہے کہ یہ لوگ مزدوری اور کام کی تلاش کی کوشش کے دوران فائرنگ سے مارے گئے۔
جنگ کی شروعات کے بعد مغربی کنارے میں بہت سے فلسطینیوں کا روزگار پابندیوں کی وجہ سے بند ہوگیا۔ کچھ نے گھر کا سازوسامان بیچا۔ سڑکوں کے کنارے پر بچے ٹشو رول، پانی کی بوتلیں اور ایر فریشنر بیچتے نظر آتے ہیں جب کہ کچھ افراد نے سڑکوں پر سینڈوچ بیچنے کے خوانچے لگا لیےہیں۔
اسرائیل کی جانب سے ملازمتوں سے نکالنا ہی ایک وجہ نہیں، فوج نے بھی مغربی کنارے پر اپنی گرفت میں اضافہ کیا ہے اور پورے علاقے میں چیک پوائنٹس کا ایسا جال بچھا دیا ہے جس کی وجہ سے کاروبار اور نقل و حرکت متاثر ہوئی ہے۔
پرتشدد واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے مطابق گزشتہ ایک برس میں 7 سو کے قریب فلسطینی اسرائیلی فائرنگ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ بہت سے پرتشدد جھڑپوں کے دوران ہلاک ہوئے، کچھ کو آرمی پر پتھر پھینکنے کی پاداش میں گولی مار دی گئی جب کہ کچھ بالکل بے ضرر تھے۔
SEE ALSO: اسپین، آئرلینڈ اور ناروے نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لیااسرائیل میں فلسطینی، مغربی کنارے کے مقابلے میں تین گنا زیادہ اجرت حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کے درمیان 7 سو کلومیٹر طویل اور سات میٹر بلند دیوار حائل ہے۔
اس دیوار کی تعمیر 2002 میں دوسرے انتفادہ یا فلسطینی بغاوت کے دوران شروع کی گئی جب بہت سے فلسطینی شہریوں نے اسرائیل میں خود کش بمباری میں حصہ لیا۔
عیاض کا کہنا تھا کہ انہوں نے مقامی جنرل اسٹوروں اور ریستوران میں کام کی تلاش کی مگر انہیں کہیں بھی روزگار نہ ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے دوستوں اور عزیزوں سے جو قرض لیا، اب وہ 16 سو ڈالر کے قریب پہنچ چکا ہے۔ انہیں پانی اور بجلی کا کم استعمال کر کے خرچ بچانا پڑا اور اب گھر کے کرائے کے لیے ان کے پاس رقم موجود نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ادھار دینے والا باقی بچا ہے۔
سو انہوں نے یہ دیوار پھلانگنے کا خطرہ مول لینے کا فیصلہ لیا۔
بد قسمتی سے جب عیاض نے دیوار پھلانگنے کی کوشش کی تو ان کی سیڑھی پھسل گئی اور وہ زمین پر گر گئے۔ ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ وہ، خالی جیبوں کے ساتھ لنگڑاتے ہوئے واپس گھر کو لوٹے۔
SEE ALSO: مغربی کنارے میں 2005 کے بعد سے مہلک ترین اسرائیلی حملہدونوں اطراف اس رکاوٹ کو عبور کرنے کے کاروبار میں ملوث گینگز کے مڈل مین، فلسطینیوں میں موجود اسمگلر ہیں۔ جو سیڑھی، رسی اور اسرائیلی جانب گاڑی بھی فراہم کرتے ہیں جو ان مزدوروں کو آبادیوں میں غائب ہونے میں مدد دیتی ہے۔
فلسطینی مزدوروں کے حقوق کے ماہر عرفات عمرو کے مطابق یہ سمگلر 79 سے 260 ڈالر تک معاوضہ لیتے ہیں۔
عمرو کے مطابق ایک دفعہ اسرائیلی حصے میں پہنچ جانے کے بعد کام ملنا مشکل نہیں ہے۔ اسرائیل میں مزدوروں کی کمی ہے اور تعمیر اور زراعت کے شعبوں میں فلسطینی مزدوروں کو ہاتھوں ہاتھ کام مل جاتا ہے۔
پکڑے جانےسے بچنے کے لیے یہ مزدورکھلے سمان کے نیچے زرعی زمینوں، درختوں اور زیر تعمیر عمارتوں میں سوتے ہیں۔
یاتا نامی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور رؤف عذرا کا کہنا تھا کہ انہیں ایک زیر تعمیر عمارت میں دو ہفتوں کا کام ملا تھا۔ جنوبی اسرائیل میں واقع اس عمارت میں انہیں 65 ڈالر روزانہ کی اجرت دینے کا وعدہ کیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ حکام کی نظر میں آنے سے بچنے کے لیے وہ رات کو اس عمارت میں ہی رہیں گے۔
اگلے روز اسرائیلی پولیس نے اس عمارت پر چھاپہ مارا اور عذرا سمیت دیگر فلسطینی مزدوروں کو زیر حراست لے لیا۔ عذرا کے مطابق اس زیر تعمیر عمارت کا مینیجر وہاں سے بھاگ گیا۔
عذرا کو چالیس روز کی قید اور 390 ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی اور قید کے بعد انہیں واپس مغربی کنارے بھیج دیا گیا۔ ان کے اسرائیل میں داخل ہونے پر تین برس کی پابندی عائد کر دی گئی۔
SEE ALSO: کیا اسرائیل مغربی کنارے میں نسل پرستی کا نظام نافذ کر رہا ہے؟مئی میں ٹانگ ٹوٹنے کے واقعے کے بعد سے عیاض چل پھر نہیں سکتے تھے۔ انہیں اپنے گھر میں موجود سونا بیچنا پڑا جو ان کی شادی کے وقت ان کے خاندان نے عیاض کی اہلیہ کو تحفے میں دیا تھا۔ اس کے علاوہ انہیں اپنی کار بھی بیچنی پڑی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسے لوگوں کو بھی جانتے ہیں جنہیں اپنا فرنیچر بھی بیچنا پڑا۔
چار مہینے بعد جب عیاض کی ٹانگ کا زخم بھر چکا ہے ان کا کہنا ہے کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو وہ پھر سےدیوار پھلانگنے کی کوشش کریں گے۔
اس خبر کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا۔