وفاقی اپیل کورٹ کا صدر ٹرمپ کا ایگزیکٹو آرڈر بحال کرنے سے انکار

سفری پابندیوں پر عارضی پابندی کے ایکزیکٹو آرڈر کے خلاف نیویارک میں مظاہرہ۔ فائل فوٹو

مارچ میں ریاست میری لینڈ کے ایک وفاقی جج نے سفری پابندیوں سے متعلق صدر ٹرمپ کے اس حکم کو معطل کر دیا تھا جو جنوری میں جاری کیے جانے والے ایکزیکٹو آرڈر کی ترمیم شدہ شکل تھی۔

امریکی ریاست ورجینیا کے شہر رچمنڈ میں ایک وفاقی اپیل کورٹ نے امریکی صدر کے اس ایکزیکٹو آرڈر کو بحال کرنے سے انکار کر دیا ہے جس میں چھ مسلم اکثریتی ملکوں کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر عارضی پابندی لگائی گئی تھی۔

جمعرات کے روز 205 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں فورتھ سرکٹ کورٹ آف اپیلز نے کہا ہے کہ یہ ایکزیکٹو آرڈر مسلمانوں پر پابندی کے دائرے میں آتا ہے۔ یہ حکم صدر ٹرمپ کے اپنے انتخاب سے پہلے اور بعد میں کیے گئے وعدوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور جو مسلمانوں کے خلاف اعلانیہ تکلیف دہ تعصب ہے۔

اس مقدمے میں 13 ججوں پر مشتمل پینل کے اکثریتی فیصلے میں صدر ٹرمپ کے ٹوئٹس، ٹیلی وژن انٹرویوز اور ان کی انتخابي مہم کی ویب سائٹ پر پوسٹ کیے جانے والے بیانات کا حوالہ ان کی منشا اور نیت کے ثبوت کے طور پر دیا گیا ہے۔

تین ججوں نے اپنے اختلافي نوٹ میں کہا ہے کہ صدر کے ایکزیکٹو آرڈر میں مذہب کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اور اس میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو تعصبانہ ارادے کی جانب اشارہ کرتی ہو۔

مارچ میں ریاست میری لینڈ کے ایک وفاقی جج نے سفری پابندیوں سے متعلق صدر ٹرمپ کے اس حکم کو معطل کر دیا تھا جو جنوری میں جاری کیے جانے والے ایکزیکٹو آرڈر کی ترمیم شدہ شکل تھی۔

اپیل کورٹ کی اکثریت کے خیال میں دوسرے ایکزیکٹو آرڈر میں کوئی نمایاں بہتری نہیں کی گئی تھی ۔

اب ٹرمپ انتظامیہ کے لیے اگلا قدم یہ ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جائے۔ اپیل کورٹ کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ 90 دن میں اپیل کر سکتی ہے۔