رسائی کے لنکس

دو وفاقی ججوں نے صدر ٹرمپ کا ترمیمی ایکزیکٹو آرڈر معطل کر دیا


اٹارنی جنرل باب فرگوسن(درمیان میں)امیگریشن کے ایک مقدمے کی سماعت کے بعد کورٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سےگفتگو کر رہے ہیں ان کے دائیں جانب نوہ پرسل اور بائیں طرف شہری حقوق یونٹ کے سربراہ کولین میلوڈی کھڑے ہیں۔15 مارچ 2017
اٹارنی جنرل باب فرگوسن(درمیان میں)امیگریشن کے ایک مقدمے کی سماعت کے بعد کورٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سےگفتگو کر رہے ہیں ان کے دائیں جانب نوہ پرسل اور بائیں طرف شہری حقوق یونٹ کے سربراہ کولین میلوڈی کھڑے ہیں۔15 مارچ 2017

امریکہ کی دو وفاقی عدالتوں نے صدر ٹرمپ کی جانب سے ایکزیکٹیو آرڈرز کے ذریعے ملک میں داخل ہونے والے مخصوص ملکوں کے مسافروں پر پابندی کی دوسری کوشش کو عارضی طور پر روکنے کے احکام جاری کر دیے ہیں۔ اور صدر ٹرمپ نےاس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر ضروری ہوا تو وہ سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف لڑیں گے۔

صدر ٹرمپ نے ریاست ٹینی سی کے شہر ناشول میں ایک ریلی کے دوران جج ڈیرک واٹسن کے فیصلے کو عدالتی چال کی ایک مثال قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں صدر کے طور پر یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ امریکی لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ملک میں داخل ہونے والوں پر کنٹرول کریں ۔

ان کا کہنا تھا کہ خطرہ واضح ہے ۔ قانون واضح ہے۔ میرے ایکزیکٹیوآرڈر کی ضرورت واضح ہے ۔ مجھے ہمارے ٹوٹے پھوٹے اور خطرناک نظام کو اور حکومت کی اس سوچ کو تبدیل کرنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا جس نے ہمارے ملک کو کمزور اور خطرے میں مبتلا کر دیا ہے اور ہمارے لوگوں کو بے یارو مددگار کر دیا ہے ۔

وفاقی جج واٹسن نے ہوائی کے اٹارنی جنرل ڈگ چن کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔

ڈگ چن نے یہ جواز پیش کیا تھا کہ چھ مسلم اکثریتی ملکوں کے مسافروں اور تارکین وطن پر سفر کی عارضی پابندی نےمسلمانوں کو ہدف بنا کر آئین کی خلاف ورزی کی ہے اور اس سے غیر ملکی طالب علموں اور ریاست کے انتہائی اہم سیاحتی شعبے کو نقصان پہنچے گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہی وہ بڑی وجہ ہے کہ ہوائی نے یہ مقدمہ پیش کیا ہے کیوں کہ یہ واقعی ایک ایسا معاملہ ہے جو ہمیں بنیادی سطح تک نقصان پہنچاتا ہے ۔ اگر آپ کے لیے کوئی ایسا حکم دیا جائے جو ہمیں نصف صدی پیچھے تک لے جا رہا ہو جب آبائی قومیت کی بنیاد پر اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا تھا تو ہمیں اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے ۔

ٹرمپ کے اس آبائی حکم نے ، جواس کے ایک ہفتے بعد جاری ہوا تھا جب انہوں نے اپنا منصب سنبھالا تھا ، ایران ، عراق ، لیبیا ، صومالیہ ، سوڈان ، شام اور یمن کے شہریوں پر تین ماہ کے لیے امریکہ سفر پر پابندی عائد کر دی تھی اور پناہ گزینوں سے متعلق حکومت کے پروگراموں کو چھ ماہ کے لیے معطل کر دیا تھا۔

ابتدائی سفری پابندی سے دنیا بھر کے ہوائی اڈوں پر افرا تفری پیدا ہوئی جب امیگریشن کے افسروں نے یہ پتہ چلانے کی کوشش کی کہ کون کون سے مسافر اس قانون کے ضمرے میں آتے ہیں۔اس سے ملک بھر میں بڑے بڑے مظاہرے بھی ہوئے ۔

یہ حکمنامہ درجنوں قانونی چیلنجوں کا باعث بنا جن کا اختتام سان فرانسسکو کی ایک وفاقی اپیل عدالت کی جانب سے اس فیصلے کے اجرا پر ہوا جس نے اس پابندی کے نفاذ کو عارضی طور پر روک دیا ۔

مسٹر ٹرمپ کی نظر ثانی شدہ پابندی سے متعلق حکمنا مے میں جو لگ بھگ دو ہفتے قبل جاری ہوا تھا،عراق کو متاثرہ ملکوں کی ابتدائی فہرست سے ہٹا دیا گیا تھا۔

کم از کم چھ اور ریاستیں سفری پابندی کو روکنے کے لیے قانونی چارہ جوئی کر رہی ہیں ۔

اپنی صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ نے کئی بار ایسے دو ٹوک بیانات دیے تھے جن میں پناہ گزینوں اور مسلمانوں کو امریکہ داخل ہونے پر پابندی کے لیے کہا گیا تھا۔

گزشتہ ماہ نائنتھ سرکٹ اپیل کورٹ نے ٹرمپ کے ابتدائی ایکزیکٹیو آرڈر پر عمل درآمد روکنے سے متعلق زیریں عدالت کے ایسے ہی فیصلے کو برقرار رکھا تھا ۔ ہوائی اسی سرکٹ کا حصہ ہے اس لیے اگر جسٹس ڈپارٹمنٹ اپیل کرتا ہے تو معاملہ دوبارہ وہیں جائے گا۔

اس سے پہلے کے صدارتی ایکزیکٹو آرڈر میں جن ملکوں کو ہدف بنایا گیا تھا، ان میں عراق بھی شامل تھااور یہ بھی کہا تھا کہ مذکورہ ملکوں کی اقلیتیں اس پابندی سے مستثنی ہیں۔

XS
SM
MD
LG