بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع بارہ مولہ کا علاقہ سوپور سیب کی پیداوار اور اس کی تجارت سے جانا جاتا ہے۔ لیکن ان دنوں وہاں پھلوں کے کاروبار سے وابستہ تمام افراد شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔
سوپور قصبے کا بازار عام طور پر سیب اور دیگر پھلوں کی کاشت کی وجہ سے تاجروں، خریداروں اور ٹرکوں سے بھرا ہوتا تھا۔ لیکن، جموں و کشمیر میں کرفیو اور پابندیوں کی وجہ سے ان دنوں وہاں سے پھلوں کی ترسیل انتہائی دشوار ہے۔
کاشت کار اس خدشے میں مبتلا ہیں کہ اگر ان کے پھلوں کو بھارت کی منڈیوں تک نہ پہنچایا جا سکا تو اُنہیں شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
کشمیر سیب کی پیداوار میں دنیا کا سب سے بڑا خطہ ہے جہاں بھارت اور دیگر ممالک سے آنے والے خریداروں کی رسائی ممکن نہیں رہی۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے اچانک ریاستی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے وہاں کاروباری سرگرمیاں متاثر ہیں۔
کاشت کاروں اور تاجروں کا کہنا ہے کہ پھلوں کا کاروبار ان دنوں شدید بحرانی کیفیت کا شکار ہے۔
سوپور کو اس کے گھنے باغات کی وجہ سے 'لٹل لندن' بھی کہا جاتا ہے جہاں بڑے بڑے گھر اور اس کے باسی سیب اور دیگر پھلوں کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
کشمیر کے معاشی ڈھانچے میں سیب کی پیداوار خون کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے کاروبار سے 35 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو مقامی لوگوں کا بتانا ہے کہ نہ صرف تاجر بلکہ ہر شخص یہاں خوفزدہ ہے۔
کسانوں اور پھلوں سے وابستہ تاجروں کا کہنا ہے کہ ان کے پھلوں کو بازاروں تک پہنچانے یا اُنہیں بھارت کی منڈیوں تک لے جانے کے لیے چھوٹ دی جائے۔
ان میں سے بعض کا کہنا تھا کہ انہیں مزاحمت کاروں کی طرف سے بھی دھمکیاں مل رہی ہیں کہ وہ اپنا کام بند کردیں۔
حاجی نامی ایک کسان کا کہنا ہے کہ اُن کے درختوں پر سیب پک چکے ہیں اور وہ حکومت اور مزاحمت کاروں کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں۔ اُن کے بقول "نہ ہم یہاں جا سکتے ہیں اور نہ وہاں۔"
حکومت کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں تشدد کی روک تھام کے لیے وادی میں بعض پابندیاں عائد کی ہیں۔
حکومت نے معاشی ترقی کا وعدہ کیا ہے جس کے لیے حکومت کا دعویٰ ہے کہ رواں سال کے اختتام پر سرمایہ کاروں کے سربراہ اجلاس کا انعقاد کیا جائے گا جس میں بھارت کی سرفہرست کمپنیاں یہاں آکر سرمایہ کاری کریں گی اور نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جائے گا۔
کاروباری شخصیات نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ صرف پھلوں کا کاروبار ہی بحرانی صورت حال کا شکار نہیں بلکہ سیاحت اور دست کاری کی صنعت بھی بری طرح متاثر ہے۔
ٹریول ایجنٹ شمیم احمد سری نگر میں سیاحوں کو قیام کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رواں سال موسم گرما میں خراب حالات کے باعث ان کا کام مکمل طور پر ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
اُن کے بقول، سیاحوں کی آمد کی وجہ سے اگست کا مہینہ مصروف ترین گزرتا ہے اور اکتوبر تک بکنگ ہوتی رہتی ہے۔ لیکن، اس بار ایسا نہیں ہے۔ اور اُنہیں معلوم نہیں کہ آئندہ کیا ہوگا۔
حالیہ چند برسوں میں کشمیر میں قدرتی آفات اور کشیدہ حالات کی وجہ سے سیاحت کے شعبے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ 2014 میں آنے والے تباہ کن سیلاب اور 2016 کی بدامنی کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں سیاحوں کی آمد کم رہی ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، رواں سال جون میں ایک لاکھ 60 ہزار سیاح کشمیر پہنچے جب کہ جولائی میں ایک لاکھ 50 ہزار اور اگست میں صرف 10 ہزار 130 سیاحوں نے وہاں کا رخ کیا۔
سیاحوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے قالین کے کاروبار کو بھی دھچکا لگا ہے۔ اس کاروبار سے وابستہ شوکت احمد کا کہنا ہے کہ جب کوئی سیاح نہیں ہوگا تو ان کا کوئی سامان فروخت نہیں ہوگا۔ اور مواصلاتی رابطوں کے منقطع ہونے کی وجہ سے وہ اپنا سامان بھارت لے جا کر بھی فروخت نہیں کر سکتے۔
سیاسی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سمیت تاجروں کی بھی بڑی تعداد حراست میں ہے، جس کی وجہ سے جموں و کشمیر کے کاروبار کو نقصان پہنچا ہے۔
سری نگر میں چیمبر آف کامرس کے نمائندوں کے مطابق، انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس کی بندش کی وجہ سے ان کا کام مفلوج ہو چکا ہے، وہ ٹیکس فائل نہیں کر سکتے اور نہ ہی بینک سے پیسے نکلوا سکتے ہیں۔