یمن کی مرکزی بندرگاہ الحدیدہ پر سعودی عرب کی قیادت میں قائم عرب ملکوں کے اتحاد کے فضائی حملے جاری ہیں جب کہ اتحاد کے فوجی دستے شہر کے ہوائی اڈے کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔
الحدیدہ پر حوثی باغیوں کا قبضہ ہے جسے چھڑانے کے لیے سعودی اتحاد نے رواں ہفتے فضائی حملے شروع کیے تھے۔
ابتدائی فضائی حملوں کے بعد عرب ملکوں کے فوجی دستوں نے شہر کی جانب پیش قدمی شروع کردی تھی جس میں انہیں یمنی ملیشیاؤں کی مدد بھی حاصل ہے۔
عرب ٹی وی چینل 'العریبیہ' نے دعویٰ کیا ہے کہ عرب اتحاد کے فوجی دستے – جن کی قیادت متحدہ عرب امارات کی فوج کر رہی ہے - الحدیدہ کے ہوائی اڈے سے محض چند میٹر دور رہ گئے ہیں اور کسی بھی وقت ہوائی اڈے پر ان کا قبضہ ہوجائے گا۔
اطلاعات کے مطابق الحدیدہ پر قابض حوثی باغی ہر صورت شہر پر قبضہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور ان کی جانب سے سخت مزاحمت کی جارہی ہے۔
جمعے کو یمن میں عید منائی جارہی ہے لیکن عید الفطر کے دن بھی عرب اتحاد کے طیاروں نے باغیوں کے زیرِ قبضہ شہر کے ساحلی علاقوں پر بمباری جاری رکھی۔
جنگی طیاروں نے الحدیدہ کو دارالحکومت صنعا سے ملانے والی مرکزی شاہراہ پر بھی بمباری کی ہے تاکہ حوثی باغیوں کو دارالحکومت سے کمک اور مزید اسلحے کی فراہمی روکی جاسکے۔
الحدیدہ کی بندرگاہ گزشتہ کئی برسوں سے خانہ جنگی کا شکار یمن کے لیے 'لائف لائن' کی حیثیت رکھتی ہے کیوں کہ یمن بھیجی جانے والی بیشتر غیر ملکی امداد اور سامان الحدیدہ کے راستے ہی یمن پہنچتا رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ عرب اتحاد کے حملے سے قبل بھی بندرگاہ پر پانچ کمرشل جہاز موجود تھے جن سے مال اتارا جارہا تھا۔
الحدیدہ حوثی باغیوں کے زیرِ قبضہ واحد بندرگاہ ہے اور اگر اس پر عرب اتحاد کا قبضہ ہوگیا تو یہ 2015ء سے یمن میں جاری اتحاد کی فوجی مہم میں اس کی اب تک کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔
الحدیدہ پر حملے سے قبل عرب اتحاد کے بحری جنگی جہازوں نے بندرگاہ کی کئی ماہ تک ناکہ بندی کیے رکھی تھی۔
عرب اتحاد کے قائدین – سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات – کا کہنا ہے کہ الحدیدہ پر قبضے کے نتیجے میں انہیں یمن میں خوراک اور دیگر امدادی سامان کی ترسیل بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
ان ملکوں کا کہنا ہے کہ حوثی باغیوں کے ہاتھ سے الحدیدہ نکل گیا تو اس کے نتیجے میں ان کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ اور میزائل درآمد کرنے کا بڑا راستہ بند ہوجائے گا۔
یمن میں جاری خانہ جنگی کے دوران حوثی باغی اب تک پڑوسی ملک سعودی عرب پر درجنوں میزائل داغ چکے ہیں جن میں سے کئی سعودی اورامریکی حکام کے مطابق ایرانی ساختہ تھے۔
خانہ جنگی کا شکار یمن کی دو کروڑ 70 لاکھ آبادی میں سے 70 لاکھ سے زائد افراد خوراک کے لیے امدادی اداروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی اشیا پر مکمل انحصار کرتے ہیں جب کہ 40 لاکھ سے زائد افراد کو پینے کا صاف پانی بھی امدادی اداروں سے مل رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن میں 84 لاکھ افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور اگر صورتِ حال بہتر نہ ہوئی تو رواں سال کے اختتام تک ایسے افراد کی تعداد ایک کروڑ 80 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔