اسرائیل کی لبنان سے متصل سرحد پر واقع گاؤں حرفیش میں زیادہ تر خواتین ہی نظر آ رہی ہیں کیوں کہ اکثر مرد حماس کے ساتھ جنگ میں اسرائیلی فوج کا ساتھ دینے کے لیے اگلے محاذوں پر روانہ ہوچکے ہیں۔
یہ عربوں میں پائی جانے والی ایک مذہبی اقلیت "دروز " کا گاؤں ہے۔ الجلیل کے علاقے میں ہر طرف دروز اور اسرائیلی پرچم دکھائی دیتے ہیں اور گزشتہ ماہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے یہاں حب الوطنی کے جذبات عروج پر ہیں۔
اسرائیلی حکام کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر کو حماس کے حملے سے اسرائیل میں لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔
اس کارروائی کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر شدید فضائی اور زمینی حملے شروع کیے۔ حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کے حملوں میں 11 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔
حماس نے اگرچہ جنوبی اسرائیل میں غیر معمولی حملے کیے تھے تاہم اس کے بعد شمال میں واقع حرفیش بھی چاق چوبند ہوگیا اور اس نے اسرائیلی فوج کے لیے کمک پہنچانا شروع کردی۔
ایک مقامی فیکٹری کو فعال کردیا گیا ہے جہاں فوجی وردیوں کی تیاری شروع ہوچکی ہے۔ گاڑیوں پر بھی اسرائیلی پرچم کے رنگوں کے اسٹیکر لگے ہیں جن پر عربی عبارتیں لکھی ہیں۔
حرفیش گاؤں میں حماس کے حملوں کے بعد بنائے گئے شہری دفاع کے ایک گروپ کے لیڈر حسن ربخ نے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس گاؤں کی آبادی سات ہزار ہے جن میں سے 80 فی صد اسرائیلی فوج، پولیس، انٹیلی جینس یا دیگر اداروں کا حصہ ہیں اور قومی دفاع کے لیے کام کررہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حرفیش کو ’تشال‘ گاؤں بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہی اسرائیلی فوج ہے۔
حرفیش کے رہنے والے مرد لبنان کے ساتھ شمالی اسرائیل کی سرحد پر مسلسل گشت کررہے ہیں۔ اس سرحد پر لبنان سے عسکریت پسند ملیشیا اور حماس کی اتحادی حزب اللہ کے درمیان سات اکتوبر کے بعد مسلسل کشیدگی پائی جاتی ہے۔
حسن ربخ کے مطابق ان کے علاقے سے لبنان کی سرحد صرف چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور ان کے گاؤں کے گرد باڑ بھی نہیں لگی۔ اس لیے دو گاڑیاں مسلسل گشت کرتی رہتی ہیں۔
گشت کرنے کے لیے 20 افراد گروپس میں گاؤں کے گرد سڑک پر گاڑی میں سوار ہوتے ہیں جب کہ پس منظر میں جنوبی لبنان پر اسرائیلی توپ خانے کی گولہ باری کی آواز سنائی دیتی رہتی ہے۔
دروز کون ہیں؟
دنیا میں اقلیتی کمیونٹیز کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’مائنورٹی رائٹس گروپ‘ کے مطابق دروز ایک مذہبی کمیونٹی ہے جو نسلاً عرب ہیں اور عربی زبان بولتے ہیں۔
ان کا مذہب توحید پرستی پر مبنی ہے اور ان کے عقائد میں اسلام، یہودیت اور مسیحیت کے تصورات بھی شامل ہیں۔ دروز مذہب پر یونانی فلسفے اور ہندو مت کے اثرات بھی ہیں۔ گیارہویں صدی عیسوی کے بعد سے دروز اپنے مذہب کا پرچار نہیں کرتے۔
SEE ALSO: جب اسرائیلی وزیرِ اعظم نے حماس کے لیڈر کی جان بچائیتنظیم"مائنورٹی رائٹس" کے مطابق دروز بنیادی طور پر گیارہویں صدی میں مسلمانوں کے باطنی فرقے یا اسماعیلی کمیونٹی سے الگ ہوئے تھے۔ فاطمی خلافت کے دور میں اسماعیلیوں سے الگ ہو کر انہوں نے فاطمی خلیفہ الحاکم کو مہدی اور خدا کا مظہر قرار دیا۔ یہ خود کو مؤحدین بھی کہلاتے تھے۔
دروزیوں کو مصر میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد انہوں نے وادیٔ التیم اور شف کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔ آج یہ پہاڑی علاقے تین ملکوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ دروزی زیادہ ترکیہ، شام اور لبنان میں آباد ہیں۔
دروز کمیونٹی اسرائیل میں بھی بستی ہے۔ اس کی کچھ آبادی اردن میں بھی ہے۔ان تمام ممالک میں دروز اپنے مذہبی نظریات کی وجہ سے ان کی حکومتوں کے ساتھ وفاداری کا اظہار کرتے ہیں۔
حرفیش کے ایک دروز رہنما موفد مراعی نے بتایا کہ ہر دروز اس زمین سے عقیدت کی حد تک وابستگی رکھتا ہے جو اسے آباد ہونے کی اجازت دیتی ہے۔ یہ ایک غیر متزلزل تعلق ہے۔
دروز اسرائیل کی آبادی کا دو فی صد ہیں تاہم انہیں اسرائیل کی پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں میں خاطر خواہ نمائندگی حاصل ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کی ڈھائی فی صد نمائندے دروز ہیں۔ اسی طرح دروز آبادی کا تقریباً 45 فی صد اسرائیلی فوج میں ہے۔ 2021 میں ’جوئش پیپل پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ کے ایک سروے کے مطابق 61 فی صد دروز خود کو ’حقیقی اسرائیلی‘ سمجھتے ہیں۔
تاہم دوسری جانب دروزوں کی زمین سے وابستگی کا معاملہ یہ ہے کہ اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں شام سے متصل گولان پہاڑیوں کے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا وہاں بسنے والے دروز اسرائیلی شہریت کو مسترد کرتے ہیں۔
SEE ALSO: اسرائیل حماس جنگ؛ کیا صدر ایردوان اسرائیل سے متعلق ’محتاط‘ ہیں؟اسرائیل کی آبادی میں 20 فی صد عرب ہیں۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیل کی عرب آبادی کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے خلاف جرائم اور حملوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
تاہم اسرائیل اور حماس کی جنگ سے قبل ہی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اسرائیل کی شہریت کے باوجود عرب آبادی کے ساتھ امتیازی سلوک پر سوال اٹھاتی رہی ہیں۔ اقلیتی حقوق کی تنظیمو ں کے مطابق اسرائیلی فورسز کے لیے خدمات پیش کرنے کے باجود دروز کمیونٹی کو اسرائیل میں ریاستی سطح پر غیر مساوی سلوک کی شکایات ہیں۔
’ایک ہی مشن‘
حرفیش میں رضا کاروں کو منظم کرنے والے موفد مراعی کے بھائی نبیہ مراعی اسرائیلی فوج کے سینئر افسر تھے اور 1990 کی دہائی میں اسرائیل کے لیے لڑتے ہوئے ان کی جان چلی گئی تھی۔
حرفیش کے علاقے میں ایک چھوٹا سا میوزیم بھی" نبیہ مراعی" کے نام سے موسوم ہے۔ خود موفد بھی نہ صرف اسرائیلی فوج میں رہ چکے ہیں بلکہ انہوں نے صرف 18 برس کی عمر میں اس وقت کے اسرائیلی وزیرِ اعظم کے نام خط میں اپنی پسند کے ایک یونٹ میں خدمات انجام دینے کی براہِ راست خواہش ظاہر کی تھی۔
موفد کا کہنا ہے کہ اسرائیلی دروز فوج کی ایلیٹ یونٹس میں خدمات انجام دینے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
موفد مراعی کے مطابق سات اکتوبر کو حماس کے حملے سے شروع ہونے والی جنگ میں اب تک دروز کمیونٹی کے 40 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر حماس کے خلاف اسرائیلی حملوں میں شریک تھے۔
اسرائیل حماس جنگ میں اب تک 300 سے زیادہ اسرائیلی اہل کار ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان میں 42 ہلاکتیں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں زمینی کارروائی کے دوران ہوئی ہیں۔ جنگ میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجیوں میں دروز کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لیفٹننٹ کرنل عالم سعد بھی شامل ہیں۔
حرفیش کے پڑوس میں واقع دروزوں کے گاؤں یانوہجات میں بھی گزشتہ ہفتے سینکڑوں سفید پوش خواتین اور وردی پوش مرد حزب اللہ کے ساتھ نو اکتوبر کو اسرائیل لبنان سرحد پر تصادم میں ہلاک ہونے والے دروز فوجیوں کی آخری رسومات میں شریک ہوئے تھے۔
اس تقریب میں شریک عالم سعد کے بھائی کمال سعد نے، جو خود بھی ایک فوجی ہیں، کہا کہ ان کے بھائی کا مشن اسرائیلی شہریوں کا دفاع تھا۔ انہوں نے اپنی جان دے کر یہ مشن پورا کیا ہے۔
اس تحریر کے لیے زیادہ تر معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔